گذشتہ کئی دنوں سے کئی لوگ مجھے ایک ویڈیو کلپ بھیج رہے ہیں، جس میں غالباً شیناکی کوہستان کا ایک بندہ اپنے کوہستانیوں کو ’’قریش‘‘ کہتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس بندے کے آبا و اجداد کب مکہ سے تشریف لائے ہیں؟ تاہم اتنا معلوم ہے کہ پورے شمال میں کئی لوگ خود کو قریش کہتے ہیں، سید کہتے ہیں یا پھر پٹھان۔ یہ نسلی تفاخر ہے، جس کو مقامی روایتی تاریخ، سماج اور سیاست نے پروان چڑھایاہے اور اس کے نیچے کم تری کا وہ احساس کارفرما ہے، جس کو اس شناختی بحران نے جنم دیا ہے، جس کی جڑیں اس شمالی خطے کی تاریخ میں پیوست ہیں۔
اکثر اوقات کئی مقامی لوگوں کو فیس بُک پر یہ شکوہ مختلف انداز سے کرتے دیکھا جاتا ہے کہ اُن کا واسطہ بدنسل یا کم تر نسل لوگوں سے پڑا ہے۔ اُن کو لگتا ہے کہ بس وہی اصیل ہیں، اعلا نسل کے ہیں اور اُن کا خاندان/ قبیلہ یا قوم برتر اور اعلا ہے۔
کئی مرتبہ یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ سیاسی اور سماجی رُتبہ صرف چند اعلا نسل کے لوگوں کا حق ہے۔ کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ چاہے وہ کچھ کریں، یا کچھ بھی نہ کریں، بس اُن کے باپ دادا کی کسی سماجی، قبائلی یا سیاسی حیثیت کی وجہ سے اُن کی عزت اس معاشرے پر لازمی ہے۔
نسلی امتیاز کو قدرت نے برقرار نہیں رکھا۔ یہ کُلی طور پر ایک سماجی مظہر ہے اور اس کی بنیاد سیاسی، معاشی اور سماجی عوامل پر ہے، نہ کہ کوئی قدرتی عمل اس کا ذمے دار ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا ذمے دار کلچر بنتا ہے۔ افراد کی خو خصلت، طور اطوار اور رہن سہن میں تفریق، کلچر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو کہ سماجی عمل ہے۔ جس ماحول میں بندہ رہتا ہے، وہ اُسی ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ یہی ماحول کلچر کا حصہ ہوتا ہے۔
کلچر کا بڑاحصہ سماجی، سیاسی، معاشی اور انفرادی طاقت کے حصول کے لیے وہ کش مہ کش ہے، جو نظریات، اقدار، روایات اور علم تشکیل دیتی ہے، جس کی وجہ سے طاقت نہ صرف اپنی شکل تبدیل کردیتی ہے، بل کہ یہ اپنامنبع، منہج ، منزل، فاعل اور مفعول بھی تبدیل کردیتی ہے۔ طاقت کی یہی کش مہ کش معاشرے میں اونچ نیچ پیدا کردیتی ہے۔ ’’مشل فوکو‘‘ اس کو ’’ڈسکورس‘‘ (Discourse) کہتے ہیں، جو کارل مارکس کے نزدیک پیداوار کے ذرائع کی وجہ سے نمو پاتی ہے۔
مارکس کے ہاں یہیں سے طبقات جنم لیتے ہیں، جب کہ دیگر مفکرین اس کو شناخت، نسلیات، صنفیات اوران کی بنیاد پر پیدا کردہ امتیازات سے جڑتے ہیں۔ ایک طرف نسل بہ شمول رنگت اورصنف کی بنیاد پر جب کہ دوسری جانب معیشت کی بنیاد پر اعلا اور کم تر کی تفریق پیدا ہوجاتی ہے۔ دونوں کا تعلق سماج سے ہے۔ دونوں فطری نہیں اور بین السطور دونوں ایک ہی بات کرتے ہیں۔
اس بحث کو مزید طول دینے کی بہ جائے شمال میں اس نئے نسلی تفاخر کی طرف چلتے ہیں، جو اصل میں اُس کم تری اور دھتکار کی وجہ سے جنم لیتا ہے، جوان قبائل کے اندر بھی جاری و ساری ہے اور جس پر دیگر اقوام کی ثقافتوں کا اثر بھی نمایاں ہے۔
افغانستان کے لغمان سے ہندوستان کے لداخ تک بہ شمول شمالی پاکستان، اس پورے خطے کی ثقافت، تاریخ اور سماج کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں زبانیں مختلف تھیں، تاہم ثقافت ماقبل اسلام کم و بیش ایک جیسی تھی۔ اسی بنیاد پر وہ اس خطے کو ایک ’’ثقافتی کُل‘‘ کہتے ہیں۔
اس خطے کی جڑیں بنیادی طور پر ویدی یا آریائی ہیں۔ اس خطے میں بسنے والوں کے مذاہب کسی بڑے مذہب سے مختلف رہے ہیں۔ یہ مذاہب جدید طرز پر کُلی طور پر ضابطے نہیں تھے۔ یہ "Standardized” نہیں تھے۔ ان کا تعلق فطری مظاہر جیسے موسموں، پہاڑوں، دریاؤں، چراگاہوں، جھیلوں اور وادیوں سے زیادہ تھا۔ فطرت ان کے ہاں ذی روح تھی۔ اسی لیے ان مقامی مذاہب کو "Animistic” بھی کہا جاتا ہے۔ بلندی کو پاکی تصور کیا جاتا تھا، جب کہ وادی کی تہہ کو ناپاکی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ یوں ان میں اونچ نیچ کا تصور موجود تھا۔ لہٰذا سماجی امتیاز بھی موجود تھا، جو اپنے لیے نسبی، کسبی اور مذہبی تفاخر کو جواز بناتا، تاہم فطرت سے قریب تر ہونے کی بہ دولت اس کی شدت اتنی نہیں ہوتی تھی۔ خاندانی تفاخر موجود تھا، مگر اتنا شدید نہیں تھا۔ لڑائیاں زیادہ تر خوراک کے حصول کے لیے کی جاتی تھیں۔ بود و باش کے لیے زراعت اور گلہ بانی کی جاتی تھی۔ مقامی طور پر سماجی انصرام زیادہ تر اُن کے مذہبی رسومات ہی انجام دیتی تھیں، جن کو بجا لانے کے لیے مخصوص لوگ ہوتے تھے۔
یہ دور قوم سازی اور قومیت (Nationalism) کے یورپی تصورات سے پہلے کا دور تھا۔ لہٰذا شناخت (Identity) پہچان اور قبائلی تفریق سے آگے نہیں جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نسبی یعنی قبیلے کی شناخت کسی اجتماعی شناخت پر فوقیت رکھتی تھی۔ پورے خطے میں لوگ ایک دوسرے میں زبان کی یا پھر جغرافیہ کی وجہ سے تفریق کرتے تھے اور باہر کے لوگ ان سب کو ان کی جسمانیت، طرزِ زندگی، مذہب اور خوراک کی وجہ سے خود سے مختلف گردانتے تھے۔ میدانی علاقوں میں ہندو دھرم کے ماننے والے ان کو گوشت خور درندے یا لڑاکو دیو کہتے، جو اکثر ان میدانی علاقوں میں خوراک کی خاطر حملے کرتے ہوں گے۔ جب اس خطے سے ایرانی و وسطی ایشیائی مسلمان مانوس ہوئے، تو اُنھوں نے اُن لوگوں کو کافر اور اُن کے علاقوں کو کا فرستان کہا۔ جوں جوں یہ مقامی مذاہب سکڑتے گئے، یہ اصطلاح بھی سکڑتی گئی، تاہم ایک اکثریت اب بھی جنوبی چترال میں 6000 لوگوں کی کالاش برادری کو کافر کہتی ہے اور ان کے مسکن کو کا فرستان۔
پھر 16ویں صدی سے اس خطے پر حملے شروع ہوئے۔ حملہ آور خواندگی سے لیس تھے اور ان کی پشت پر وسطی ایشیائی اور ہندوستانی سلطنتیں ہوتی تھیں۔ اُن کے سامنے بھلا کب یہ مقامی لوگ ٹھہر سکتے تھے! یوں یہ لوگ زیر ہوتے گئے۔ ان سے ان کی ثقافتیں اور زبانیں چھوٹتی گئیں۔ ان کی بڑی تعداد اُن طاقت ور حملہ آوروں میں ضم تو ہوگئی، تاہم ان کا سماجی رتبہ کم تر ہی رہا، جن کے پاس اپنی زبانیں کچھ حد تک سنگلاخ پہاڑوں میں رہنے کی وجہ سے بچ گئیں۔ ان زبانوں کو اب ’’داردی زبانیں‘‘ کہا جاتا ہے۔
حملہ آوروں کے پاس جواز تھا، طاقت تھی اور علم تھا۔ اسی طرح ’’مشل فوکو‘‘ کی ڈسکورس تھیوری کی طرح نیا ڈسکورس جنم لینے لگا جس میں وہی بیانیہ، وہی علم اور وہی نظریہ باقی رہا، جس کا تعین اُن حملہ آوروں نے کیا۔ یوں ماضی اور ثقافت چھین جانے کی وجہ سے یہ لوگ جب اُن بالادستوں سے سماجی طور پر نبرد آزما ہوئے، تو اسی میل جول کی وجہ سے ان میں شناختی بحران نے جنم لیا۔ حملہ آور خود کو اعلا نسلوں سے منسلک کرکے اہلِ بیت، سید اور قریش کہتے تھے۔ جب ان زیرِ تسلط لوگوں نے بھی کسی ایسی شناخت کی خواہش کی، تو ان کو کہا گیا، چلیں! آپ بھی قریش ہوگئے، پر ابوجہل کے خاندان کی طرف سے، کیوں کہ آپ جاہل ہیں!
اس نئے ڈسکورس کی بہ دولت ان مقامی لوگوں نے ان حملہ آوروں کی سماجی ساخت کو اپنایا۔ اسی ساخت میں قبائلی تفاخر اور نسلی امتیاز کوٹ کوٹ کربھرا تھا، جس نے ان مقامی لوگوں میں اس نسلی امتیاز کو مزید بڑھاوا دیا، تاہم ماضی کے برعکس سماجی ساخت میں تبدیلی آگئی۔ جو ماضی میں کبھی سردار تھے، مقامی بادشاہ تھے، اُن کارتبہ تبدیل ہوتا گیا۔ اس نئے ڈسکورس نے ان لوگوں کو زیادہ نوازا جنھوں نے ان حملہ آوروں سے تعاون کیا۔
اس کے بعد جب یہاں ریاستیں بن گئیں، تو اس کے ساتھ سماجی ساختوں اور رتبوں میں بھی تبدیلی آئی۔ مقامی طور پر جن لوگوں کو کم تر گردانا گیا، انھوں نے اپنی شناخت علاقے سے باہر کسی بڑی طاقت ور قوم سے جوڑنے کی کوشش کی۔ یوں اس نسلی امتیاز کی وجہ سے ان داردی لوگوں کی صفوں سے اپنے بھی بھاگنے لگے۔ کئی لوگوں نے تو وفود کی شکل میں جاکر کسی اور قوم سے درخواست کی کہ ان کو اپنی شناخت دے کر اپنے ساتھ ملایا جائے۔
اس نئی سماجی ساخت نے مقامی طور پر زمین اور قدرتی وسائل کی تقسیم اپنے قبائلی طرز اور سماجی ضروریات کی بنیاد پر کی، جس کی وجہ سے کئی مقامی لوگوں کو ان وسائل پر حق داری سے محروم کیا گیا۔ ساتھ اُن حملہ آوروں کی سماجی و ثقافتی ساخت میں ڈھل کر ان مقامی آبادیوں کے بیچ اونچ نیچ کی وہ کھائیاں مزید گہری ہوتی گئیں۔ اسی سے نسلی امتیاز نے مزید تقویت حاصل کی۔ جن لوگوں کو کم تر گرادنا گیا، انھوں نے مزاحمت کی بہ جائے کہیں اور کسی شناختی لنگر کو ڈھونڈا۔ تاہم جن کے ساتھ انھوں نے خود کو نتھی کرنا چاہا، وہ کبھی ان کو اپنے برابر کی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
اِدھر اُدھر بھاگنے کی بہ جائے مزاحمت کی جانی چاہیے اور نئی سماجی ساخت کو چیلنج کرنا چاہیے۔ نیا ڈسکورس تربیت دینے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ایسا علم، تحقیق، فکر کے ساتھ پیداوار کے نت نئے ذرائع آپنانے سے ممکن ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
