’’غیر متنازع‘‘ شرارؔ اور ’’متنازع‘‘ شرارؔ

Blogger Sajid Aman

شوکت علی کا نام مَیں بچپن سے سنتا آیا ہوں۔ سوات کا رہایشی ہو اور شوکت علی شرارؔ کے نام سے ناواقف ہو، بہت حیرت کی بات ہوگی۔ شرارؔ صاحب کی شخصیت کے اتنے حوالے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی حوالے سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ میرے کزن ہونے کی وجہ سے گھر میں اُن کا ذکر، حسنِ سلوک، والدین کی عزت، بھائیوں سے پیار، رشتہ داروں سے میل ملاپ کی وجہ سے ایک استعارے کے طور پر ہوتا رہا۔ اُن کی والدہ کبھی ذکر کرتیں، تو پہلے بے شمار اور بے اختیار دعائیں اُن کے نام کرتیں اور پھر اُن کا نام لیتیں۔
مرغزار روڑ پر ایک تاریخی اور قدیم گاؤں سپل بانڈی کے سید گھرانے آخوند خیل میں جنم لینے والے شوکت علی نے اپنے گھر، خاندان یا گاؤں کے لیے اعلا اقدار اور مقام کا معیار نہیں رکھا، بل کہ پورے سوات میں سول انجینئرنگ اور تعمیرات کے میدان میں انقلاب برپا کیا۔ بے شمار نوجوانوں کے ہیرو اور استاد ٹھہرے۔ اُن کو ملاکنڈ ڈویژن کے پہلے باقاعدہ، با صلاحیت اور قابل آرکیٹیکٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اُنھوں نے سوات میں ٹرینڈ سیٹ کیا۔ کئی نوجوانوں کے لیے ’’بنچ مارک‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اکبر خان (مرحوم) کے صاحب زادے شوکت شرارؔ کو رکھ رکھاؤ، دانش اور حکمت والد صاحب سے ورثے میں ملی اور ملن ساری، اُخوت، احترامِ آدمیت اور خلوص والدہ کی تربیت کا اثر رہا۔ والدین کی تربیت اور حوصلہ افزائی نے شرارؔ کو ایک پختہ نظریات اور ارادوں والا انسان بننے میں مدد دی۔
انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد شرارؔ نے ایک کنسلٹیشن فرم قائم کی، جو ملاکنڈ ڈویژن میں اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ بنی ۔ سرکاری اور پرائیوٹ بے شمار تعمیرات کے نقشوں کے لیے شوکت شرارؔ کا نام ایک اعزاز کے طور پر شامل ہونے لگا۔ ساتھ ہی جس نے چاہا، وہ اُن کے دفتر پہنچا اور جس نے سیکھنے کی خواہش کی، وہ اپیار اور مہارت سے سیکھا۔
پیشہ ورانہ مہارت اور مصروفیات کے علاوہ شوکت علی شرارؔ فنونِ لطیفہ اور فطرت کے بڑے دل دادہ رہے ہیں۔ علم و ادب سے رغبت نے اُن کی شخصیت میں نکھار پیدا کیا۔ موسیقی کی پہچان اور معرفت نے اُن کی فطرت کی پرستش کی حس واضح کی۔ خدمتِ خلق اور انسان دوستی نے اُن کو اعلا درجے پر پہنچایا۔ ماحولیاتی تبدیلی سے آگاہی، جنگلات کی اہمیت اور شجر کاری کی ضرورت پر اُنھوں نے اُس وقت بولنا شروع کیا، جب شاید ملکی سطح پر اس کی اہمیت کو محسوس بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ اُنھوں نے کئی سیمینار اور عوامی آگاہی کے پروگرام کیے۔ اُن کو ملکی اور غیر ملکی فورموں پر پذیرائی اور محبت ملی۔حلقۂ یاراں میں اُن کو بہت ہی خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ وسیع حلقۂ احباب اور مختلف الخیال لوگوں سے محافل نے ان کی شعوری سطح کو بلند رکھا۔ فرسودہ نظام اور جہالت کے ہمیشہ خلاف رہے،نہ صرف خلاف رہے، بل کہ اس کو ختم کرنے کی عملی کوششیں بھی کیں۔ ساتھ ہی ترقی پسندی اور جدیدیت کے بہتر تصور کو بھی عام کرنے کی کوشش کی۔ مطالعہ وسیع رہا اور تاحال جاری ہے۔
سپل بانڈئی اور گل بانڈئی پڑوسی گاؤں ہیں۔ ویسے گل بانڈئی ان کا ننھیال بھی تھا۔ سو درمیان میں آبادی سے الگ ایک خوب صورت خوابوں کا محل تیار کیا۔ محل اس لیے کہ تخلیق کار کو محفل بھی چاہیے اور تنہائی بھی اور یہی محل اپنی ہاتھوں سے تخلیق کیا۔ شریکِ حیات تعلیم یافتہ اور عین مزاج کے مطابق ملی، جنھوں نے زندگی کے سفر کو سہل بنادیا۔ خاندان اور گاؤں میں اُن کو ایک آئیڈیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے تعلیم حاصل کرنا گویا لازم قرار پایا اور اعلا تعلیم کی کوشش ہر گھر سے ہوئی۔ بہت سارے لوگ آگے تک پڑھ لکھ گئے۔ شوکت علی شرارؔ نے حجرہ، چوپال میں ہمیشہ ایسے نوجوانوں کی ہمت بڑھائی۔ دنیا کا سفر کیا اور فطرت کی فیاضی پر اَش اَش کر اُٹھے۔
جب ودودیہ ہائی اسکول کی عمارت ڈھائی جا رہی تھی، تو اُس کو بچانے کے لیے شرارؔ نے ہر ممکن کوشش کی۔ جب جہانزیب کالج کی عمارت کو مسمار کرنے اور اُس قابلِ فخر عمارت کو ڈھانے کی سازش شروع ہوئی، تو شوکت شرارؔ بچانے نکلے اور ہر فورم پر بات کی۔ اس کے لیے ٹیکنیکل بنیادیں فراہم کیں اور عمارت کو محفوظ کرنے کے لیے سائنسی اور جدید تکنیک پر مدلل گفت گو کی۔
اس کے بعد شرارؔ کی زندگی کا سب سے متنازع فیز شروع ہوا، جو اُن کی شخصیت سے بالکل متضاد تھا۔ جب اُنھوں نے جہانزیب کالج کی شہادت کے حق میں دلائل دینے شروع کیے، تو وہ جہانزیب کالج کو منہدم کرنے کا محرک بنے۔ وہ مادرِ علمی کو ڈھادینے کے عمل کی وجہ بنے۔
جہانزیب کالج کی عمارت کی ہر گرتی اینٹ شوکت شرارؔ کا نام لیتے گری۔ شاید مذکورہ وکالت اُن کے لیے ضمیر کا بوجھ بن گئی۔ اُن کی زندگی بدل گئی۔ وہ کھوئے کھوئے رہنے لگے۔ بیماری نے اُنھیں اعصابی طور پر بھی کم زور کردیا۔ شاید احساسِ ندامت اُن کو سپل بانڈئی کی قدیم اور تاریخی مسجد کے مستقل حاضرین میں لے گئی۔ وہ جتنے بڑے انسان ہیں، اُس سے کہیں بڑے ظلم میں حصہ دار ہوئے۔ ’’غیر متنازع‘‘ شرارؔ سے ’’غیر‘‘ کا سابقہ ہٹ گیا۔ جہانزیب کالج کے لیے وہ غیر ہوگئے، جہانزبینز کے لیے غیر ہوگئے، سوات کے لیے غیر ہوگئے۔ کوئی دلیل، کوئی منطق اُن کے اس تاریخی غلط موقف کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
بہ ہرحال شرارؔ زندگی کا نام ہے۔ اُن کا ہر حوالہ زندگی ہے، پیار ہے، اُخوت ہے، مہربانی ہے۔ اب جہانزیب کالج کی تاریخی عمارت کی جگہ ایک ’’ڈمی بلڈنگ‘‘ کھڑی تو کی گئی ہے، مگر غیر مرئی طور پر اصل عمارت کے ’’قاتلوں‘‘ کے نام اس کی پیشانی پر لکھے محسوس ہوتے ہیں۔ اصل عمارت کی سسکیاں ڈمی بلڈنگ کے سامنے سے گزرتے ہوئے سنائی دیتی ہیں۔ ہر سننے والا کان اُن سسکیوں کو سنتا ہے اور ہر مہربان دل اُن کو محسوس کرتا ہے۔
شرارؔ کی زندگی سے یہ متنازع باب نکال لیا جائے، تو ہر ماں اور ہر باپ اپنے بچے کو شرارؔ جیسا بننے کی خواہش کرے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے