تقریباً 25 منٹ کے سفر کے بعد شمس الرحمان فاروقی کی گاڑی جون کے دروازے پر کھڑی ہوگئی ہے۔ جون جوشِ مسرت سے فاروقی سے گلے ملے ہیں۔ چائے کے بعد دل چسپ گفت گو ہو رہی ہے۔ ذاتی گفت گو بڑھتے بڑھتے شعر و ادب کے موضوع تک پہنچ چکی ہے۔ فاروقی حسبِ معمول زیادہ بول رہے ہیں۔ اُن کی گفت گو میں مواد ہوتا ہے۔ اِس وقت ڈاکٹر اقبال زیرِ بحث ہیں۔ ٹھنڈک اچھی خاصی ہے۔ کمرے کے دروازے بند ہیں۔ سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا ہے۔ فاروقی ڈاکٹر اقبال کی شاعرانہ عظمت ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ دلیلیں بھی پیش کر رہے ہیں۔ اِس وقت تک باقی لوگ فاروقی کو سُن رہے ہیں۔ اَب جون گفت گو کا رُخ بدل رہے ہیں۔
’’وہ شاعر عظیم شاعر کیسے ہو سکتا ہے، جس نے متضاد کرداروں کی مدح سرائی کی ہو!‘‘
’’مثلاً……؟‘‘ فاروقی نے وضاحت چاہی ہے۔
’’مثلاً: ڈاکٹر اقبال کا ہیرو بہ یک وقت اورنگ زیب بھی ہے اور سرمد بھی…… ایک ہی شاعر قاتل اور مقتول دونوں کو بلند کردار سمجھے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
فاروقی ڈاکٹر اقبال کو "Defend" کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بات آگے بڑھ رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد جونؔ پھر لب کشا ہیں۔
’’مسو لینی میں عظیم انسان کی کون سی خوبیاں ہیں…… وہ ڈاکٹر اقبال کا ہیرو کیسے ہوگیا؟ برٹش امپائر کے شہنشاہ کے سامنے ڈاکٹر اقبال نے سرِتسلیم کیسے خم کر دیا…… کیا عظیم شاعر کا کردار ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ ہر طبقے کے لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے ؟ اس کے علاوہ شاہین ایک ایسا خوں خوار طائر ہے، جس میں رحم کا جذبہ ہر گز نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر اقبالؔ نے شاہین کا تصور پیش کرکے اور اُسے علامت بنا کر انسان کو خوں خوار بننے کی تعلیم کیوں دی……؟‘‘
اس گرما گرم بحث کے بعد محفل میں کچھ دیر کے لیے خاموشی ہوگئی۔ (’’مَیں یا مَیں‘‘ میں آذر بارہ بنکوی کے مضمون سے اقتباس۔)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔