چیٹ جی پی ٹی اور اقلیتی زبانوں کا مستقبل

Blogger Mujahid Torwali
 پہلے ہی سے مشکلات کا سامنا کرنے والی اور معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کے لیے ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘ نے ایک نیا چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ تکنیکی اور مصنوعی ذہانت کی ترقی نے ان زبانوں کو درپیش پیچیدگیوں کو مزید اُجاگر کر دیا ہے۔ اقلیتی اور چھوٹی زبانوں کی حفاظت کے لیے زبانوں پر کام کرنے والے سماجی کارکنان اور ماہرِ لسانیات ایک طویل عرصے سے مختلف حکمت عملیوں کا استعمال کرتے چلے آرہے ہیں، جس میں زبان کی ترویج، علمی اور عملی طور پر استعمال اور تعلیمی مواد کی تیاری وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام تر کوششوں کی وجہ یہ تھی کے ان زبانوں کو محفوظ رکھا جا سکے اور ان کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ 
تاریخی طور پر، یہ کوششیں برطانوی نوآبادیاتی دور میں آسٹریلیا اور جنوبی ایشیا میں زور پکڑیں، جب قابضین نے مقامی زبانوں کو دستاویزی شکل دینے میں دل چسپی ظاہر کی، تاکہ مقامی علم کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے اور نوآبادیاتی انتظام کو موثر بنایا جاسکے۔
مقامی زبانوں کی باقاعدہ دستاویز بندی (Documentation) مختلف خطوں میں مختلف ادوار میں شروع ہوئی، جو عموماً نوآبادیاتی اور مشنری سرگرمیوں، بشریات اور بعد میں لسانی تحقیق کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ اس دستاویزی عمل کی تاریخ کو مختلف اہم ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
٭نوآبادیاتی دور:۔ جب یورپی طاقتیں مختلف علاقوں کو نوآبادیات میں تبدیل کر رہی تھیں، تو مشنری اور نوآبادیاتی انتظامیہ نے مقامی زبانوں کو دستاویزات میں محفوظ کرنا شروع کیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، یہ عام طور پر مقامی لوگوں کے ساتھ گفت گو، ان کے بارے میں معلومات اور انتظامی کاموں میں آسانی پیدا کرنے کے لیے کیا گیا۔ اس کی ابتدائی مثالوں میں 16ویں صدی میں اسپینی مشنریوں کا امریکہ میں کام شامل ہے، جنھوں نے مذہبی تعلیم دینے کے لیے مقامی زبانوں کے لغات اور گرامر تیار کیے۔
19ویں صدی میں، جب علمِ بشریات اور لسانیات ایک باقاعدہ علم کے طور پر اُبھرنے لگے، مقامی زبانوں اور ثقافتوں کو ریکارڈ کرنے کی کوششیں بڑھ گئیں۔ شمالی امریکہ میں ’’فرانز بواس‘‘ جیسے ماہرین نے ان زبانوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان کا مطالعہ شروع کیا۔ خاص طور پر ان زبانوں کا، جنھیں خطرات لاحق تھے، یا جنھیں ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں گیا تھا۔ جارج ابراہم گریئرسن، لیوس ہنری مورگن، سر ہیرالڈ ڈین، سر اوریل اسٹائن، جان بڈلف اور ایس آئی ایل انٹرنیشنل کے محققین بھی ان نمایاں شخصیات میں شامل ہیں، جنھوں نے دردستان سمیت شمالی پاکستان کی زبانوں کے مطالعے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان محققین میں سے بیش تر نے ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران میں اپنی تحقیق شروع کی تھی۔
٭ ابتدائی لسانی مطالعات:۔ 20ویں صدی کے آغاز میں، لسانی ماہرین نے زبان کے مطالعے کے لیے سائنسی طریقہ اختیار کرنا شروع کیا، جس میں فیلڈ ورک کے ذریعے مقامی زبانوں کے بارے میں ڈیٹا جمع کرنا شامل تھا۔ اس میں صوتی ریکارڈنگ، مقامی حکمت اور الفاظ کی فہرستیں تیار کرنا شامل تھا۔ اس عرصہ میں زبانوں کی دستاویزات اور مطالعے میں نمایاں علمی ترقی دیکھنے میں آئی۔ برطانوی نوآبادیات نے جنوبی ایشیا کی مختلف زبانوں پر تحقیق کو بڑھایا اور ان کا دائرۂ کار شمالی پاکستان تک پھیلایا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد، زبانوں کی دستاویزات میں دوبارہ دل چسپی اور فوری ضرورت محسوس کی گئی۔ کیوں کہ عالم گیریت اور جدیدیت نے زبانوں کو بقا کے نئے چیلنجوں سے دوچار کر دیا تھا۔ 20ویں صدی کی دہائی میں ایس آئی ایل انٹرنیشنل اور بعد میں مختلف یونیورسٹی پروگراموں نے کم مطالعہ شدہ یا خطرے سے دوچار زبانوں کی دستاویزات اور تجزیے کے لیے لسانی ماہرین کو تربیت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اکثر نے ان زبانوں پر توجہ مرکوز کی، جو کم مطالعہ شدہ یا خطرے سے دوچار تھیں۔
٭ جدید تکنیکی دور:۔ 20ویں صدی کے آخر اور 21ویں صدی کے اوائل میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے زبان کی دستاویزات کے عمل کو بدل کر رکھ دیا۔ ڈیجیٹل آڈیو اور ویڈیو آلات اور تجزیہ کے لیے سافٹ ویئر نے لسانی ماہرین کو زبانوں کے زیادہ تفصیلی ریکارڈ دست یاب کرنے میں مدد دی۔ یونیسکو اور انڈینجرڈ لینگویجز پروجیکٹ جیسے ادارے بھی اس میں شامل ہوگئے اور آگاہی بڑھانے اور ضروری وسائل فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
مقامی زبانوں کی دستاویزات کی تاریخ علاقائی اور ادواری فرق کے ساتھ کافی پیچیدہ ہے۔ ان دستاویزات کی بنیادی وجوہات وقت کے ساتھ مختلف رہی ہیں؛ مثلاً: استعماری اور مشنری مقاصد سے لے کر تعلیمی، لسانی اور حفاظتی ضروریات تک۔ ان مراحل نے مقامی زبانوں کے بارے میں سمجھ بوجھ میں کافی حد تک اضافہ کیا ہے، جیسے کہ ان زبانوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنا، لغات اور دیگر دستاویزی کام وغیرہ۔ ان تمام تر سرگرمیوں میں کمیونٹی کی شمولیت اہم رہی ہے، جس میں مقامی ماہرِ لسانیات کی جد و جہد، سوشل میڈیا، گروپ مباحثے اور مختلف کمیونٹی سرگرمیاں شامل ہیں۔ اگر موجودہ دور میں دیکھا جائے، تو یہ کام میرے جیسے لسانیات کے طلبہ کے لیے نسبتاً آسان ثابت ہوا ہے، جو ان کمیونٹیز کا حصہ ہیں۔
ان تمام تر کوششوں کے باوجود مصنوعی ذہانت (AI) کے آغاز نے اس منظر نامے کو کافی حد تک تبدیل کر دیا، جس سے مقامی ماہرین اور ماہرِلسانیات کو اس بات کا خدشہ ہے کہ "AI" ایک نئی تکنیکی نوآبادیات کی نمایندگی کرسکتا ہے جو اقلیتی زبانوں کو مزید مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ "AI" کا زیادہ استعمال ان زبانوں میں مہارت فراہم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، جو پہلے سے غالب ہیں جیسے انگریزی، فرانسیسی، جاپانی اور چینی۔ یہ جدید دریافت اقلیتی زبانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کیوں کہ فی الحال تو "AI" کا اُردو اور عربی رسم الخط پر مبنی زبانوں میں معیار غیر مستحکم ہے۔ حالاں کہ بہتری کی کوششیں جاری ہیں۔ اُردو، پشتو اور دیگر عربی رسم الخط والی زبانوں میں "AI" سے تیار کردہ مواد اکثر بے ترتیب اور گم راہ ہوتا ہے، جس سے نتائج الجھن اور مضحکہ خیز ترجمے کی صورت میں نکلتے ہیں۔
حال ہی میں، مَیں نے توروالی زبان کے چند بہت ہی بنیادی جملوں کا ترجمہ "AI" سے کروانے کی کوشش کی، لیکن نتائج حیران کن حد تک غلط نکلے۔ غیر توروالی بولنے والوں کے لیے یہ ترجمے ٹھیک لگ سکتے ہیں، لیکن توروالی زبان کے جاننے والوں کے لیے یہ بالکل بے معنی اور پریشان کن تھے۔ "AI" یہ تسلیم نہیں کرتا کہ اسے کسی چیز کا علم نہیں، بل کہ وہ دی گئی معلومات کی بنیاد پر جوابات فراہم کرتا رہتا ہے، اس تجربے نے "AI" کے زبان سے متعلق استعمال کے ایک اہم پہلو کو واضح کیا: صارف کے لیے زبان کی بنیادی سمجھ ہونا ضروری ہے۔ بہ صورتِ دیگر "AI" پر انحصار کرنا غلط اور گم راہ کن ترجمے کا سبب بن سکتا ہے۔
اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ اقلیتی زبانوں پر تحقیق اور ترقی میں بہتری آئی ہے، لیکن چیٹ جی پی ٹی جیسے "AI" ٹولز کے سامنے آنے سے نئی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔ "AI" کا انگریزی اور دیگر چند بڑی زبانوں کو ترجیح دینا اقلیتی زبانوں کے استعمال اور ترقی میں بڑی رکاوٹ بن رہا ہے، جس سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ڈیجیٹل دنیا میں چھوٹی زبانیں اس بار انسانی نہیں، بل کہ سائنسی نوآبادیت کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں۔ 
بہ طور ایک مقانی زبان کے سرگرم کارکن، مجھے مصنوعی ذہانت کی ایجادات سے اقلیتی زبانوں کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہے۔ تاہم "AI" کی صلاحیتیں صرف زبان تک محدود نہیں، بل کہ یہ ٹیکنالوجی گرافک ڈیزائن، فن اور فوٹوگرافی جیسے شعبوں پر بھی اثر ڈال رہی ہے، جہاں لوگوز، گرافکس اور دیگر تخلیقی کام تیزی اور موثر انداز میں تیار کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے انسانی گرافک ڈیزائنرز اور فن کاروں کی ضرورت میں کمی آ رہی ہے۔ یہ پیش رفت مختلف پیشہ ورانہ شعبوں میں ایک وسیع اثر کی عکاسی کرتی ہے، جہاں انسانی مہارتوں کی جگہ خودکار طریقے اپنا رہے ہیں، جس سے پاکستان جیسے ممالک سخت متاثر ہوں گے، جہاں اکثریت غیر تعلیمی افراد کی ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرکے اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کماتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے