ہر انسان کے نصیب میں کمینے دوست ہی کیوں ہوتے ہیں؟ اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ مَیں نے اپنے گوڑھے سجن شکیل علوی سے یہی بات پوچھی۔ کہنے لگا، ’’ہاں یار! ٹھیک کہتے ہو۔ کبھی کبھی میں بھی یہی سوچتا ہوں کہ سارے کمینے میرے اردگرد ہی اکٹھے کیوں ہو گئے ہیں؟‘‘
ہمارے ارد گرد کے علاوہ وجود کے اندر بھی اس قدر حبس ہوگئی ہے کہ تازہ ہوا کے جھونکوں کی اشد ضرورت ہے۔ ہر بندہ ٹینشن، ڈپریشن، انگزائٹی اور گھٹن کا شکار ہے۔ ایسے میں تھوڑی سی ہنسی، ٹھنڈی ہوا کا معمولی سا جھونکا بھی تازگی کا احساس دلاتا ہے۔ اسی لیے آج کا کالم کسی گمبھیر مسئلے کی نشان دہی کی بہ جائے اِدھر اُدھر کی حماقتوں کو اکٹھا کرکے آپ کے چہرے پر ہنسی لانے کی کوشش ہے کہ ’’ہنسی علاجِ غم ہے۔‘‘
ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں کہ شکیل علوی کا فون آ گیا: ’’کیا حال ہے؟‘‘
’’یار! میں سخت ڈپریشن میں ہوں!‘‘
’’اچھا، ہاہاہا…… ذرا ڈپریشن کے سپیلنگ تو بتائیں!‘‘ اُس نے ’’اچھا‘‘ کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا۔ اَب میں سر کھجا رہا تھا اور وہ قہقہے لگا رہا تھا۔ مخولیا کہیں کا۔
بات مخول کی طرف چل نکلی، تو آئیے کچھ مزید مخولیا باتوں پر ’’کچّا ہاسا‘‘ ہنستے ہیں۔
آفس سے تھکی ہاری خاتون چھٹی کے بعد گھر جانے کے لیے بس میں سوار ہوئی اور سیٹ پر بیٹھ کر آنکھیں موند کر تھوڑا سا ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ ابھی بس چلی ہی تھی کہ اگلی قطار میں بیٹھے ایک صاحب نے اپنا موبائل نکالا اور اونچی آواز میں گفت گو شروع کر دی۔ اُن کی گفت گو کچھ اس طرح سے تھی:
’’جان مَیں شیدا بول رہا ہوں۔ بس مَیں بیٹھ گیا ہوں اور گھر ہی آ رہا ہوں۔ ہاں ہاں مجھے پتا ہے کہ سات بج رہے ہیں، پانچ نہیں۔ بس ذرا آفس میں کام زیادہ تھا، اس لیے دیر ہوگئی!‘‘
’’نہیں جان، مَیں شازیہ کے ساتھ نہیں تھا، مَیں تو باس کے ساتھ میٹنگ میں تھا۔‘‘
’’نہیں جان، صرف تم ہی میری زندگی میں ہو۔‘‘
’’ہاں قسم سے……!‘‘
اس اُونچی آواز میں مسلسل گفت گو سے خاتون کا سارا ریلیکس کرنے کا پروگرام غارت ہوچکا تھا اور وہ بہت ’’اَن ایزی‘‘ محسوس کر رہی تھی۔ کافی دیر بعد تک بھی جب یہ سلسلہ جاری رہا، تو خاتون کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ اُٹھی اور فون والے کے پاس جا کر زور سے بولی۔
’’شیدے ڈارلنگ، فون بند کرو، بہت ہوچکا۔ اس پاگل عورت کو کتنی صفائیاں دوگے؟‘‘
قارئین! اب شیدے میاں ہسپتال سے واپس آچکے ہیں، لیکن پبلک مقامات پر انھوں نے موبائل کا استعمال مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ بھی عقل مند ہی ہیں۔ اس امید کو یقین میں بدلنا آپ کا کام ہے۔ چلیے، اگلی مخولیا بات کی طرف بڑھتے ہیں۔
کسی گاؤں کے چودھری کا انتقال ہوگیا۔ مرنے والے میں ساتوں شرعی عیبوں کے علاوہ 14 ’’غیر شرعی عیب‘‘ بھی تھے۔ تدفین کے بعد جب گاؤں کے لوگ ’’پھوڑی‘‘ پر بیٹھے، تو مولوی صاحب نے رسمِ دنیا کے مطابق بات شروع کرتے ہوئے کہا: ’’اللہ، چودھری صاحب کی مغفرت کرے، مرحوم……!‘‘
اس کے بعد اُن کی زبان رُک گئی۔ ذہن سوچنے لگا کہ مرحوم کی کیا خوبی بیان کروں؟ کیوں کہ خوبی تو کوئی تھی ہی نہیں۔ انھیں خاموش دیکھ کر ایک اور زمین دار بولا: ’’رب سوہنا چودھری ہوراں نوں بخشے……!‘‘
اس کے بعد اس بے چارے کو بھی سمجھ نہ آئی کہ کیا کہوں؟
اتنے میں گاؤں کے پرائمری سکول کے واحد ماسٹر صاحب نے کھنکار کر گلا صاف کیا: ’’یہ دنیا فانی ہے۔ سب نے اِک روز چلے جانا ہے۔ آج چودھری صاحب بھی چلے گئے۔ مرحوم بہت ……!‘‘
یہاں پہنچ کر ماسٹر صاحب کو بھی چپ لگ گئی۔ چودھری کا بڑا بیٹا یہ دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھا رہا تھا، لیکن خود اُسے بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ابا جی کی کیا خوبی بیان کی جائے؟ ناچار اُس نے گاؤں کے نائی کو گھور کر دیکھا اور آنکھ سے اشارہ کیا کہ تم ہی منھ سے کچھ پھوٹو……!
بے چارہ نائی بھی سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کہوں؟ آخرِکار اُس نے چودھری کے بیٹے کے پاؤں پکڑ لیے اور بولا: ’’رب سوہنا وڈے چودھری صاحب کی بخشش کرے۔ اوناں دیاں مُچھاں دے وال زیادہ سخت نئیں سن!‘‘
اَب اگر آپ نائی سے مراد پی ٹی آئی کے ورکرز، جیالے، متوالے، پارلیمانیے، صدارتیے، اسٹیبلشیے اور ق لیگیے لیتے ہیں، تو آپ کی مرضی…… ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔
ایک دفعہ بابو صاحب کنڈکٹر کو کرایہ دینے کے لیے سائڈ جیب میں ہاتھ ڈالنے لگے، تو ساتھ بیٹھے اجنبی نے اُن کا ہاتھ سختی سے پکڑتے ہوئے کہا: ’’نہیں بابو صاحب! آپ کا کرایہ میں دیتا ہوں!‘‘
بابو نے بہت کہا کہ وہ اپنا کرایہ خود دے گا، لیکن اجنبی بہت مہربان ہو رہا تھا۔ اُس نے زبردستی کرایہ کنڈکٹر کو دے دیا۔ اَگلے سٹاپ پر اجنبی اُتر گیا۔ بابو نے کسی چیز کو نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا، تو سر تھام کر بیٹھ گیا۔ اجنبی نے اس کی جیب کا صفایا کر دیا تھا۔
دوسرے دن وہ چور بازار میں بابو کے ہتھے چڑھا، تو بابو کو گلے لگا کر رونے لگا: ’’بابو صاحب! مجھے معاف کر دو۔ آپ کی جیب کاٹنے کے بعد میری بیٹی مرگئی!‘‘
بابو نے نرم دلی سے اُسے معاف کر دیا۔ چور چلا گیا، لیکن گلے ملتے وقت اس نے پھر بابو کی جیب کا صفایا کر دیا تھا۔
چند دن بعد بابو صاحب موٹر سائیکل پر کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں اُس چور نے اُنھیں روکا۔ روتے ہوئے معافی مانگی اور سارے پیسے بابو صاحب کو لوٹا دیے۔ پاس کی دُکان میں لے جا کر بابو کو کولڈ ڈرنک کی بوتل پلانے کے بعد چلا گیا۔
بابو خوشی خوشی جب اپنی موٹر سائیکل والی جگہ پر آیا، تو دیکھا کہ اس بار چور اُس کی موٹر سائیکل لے گیا تھا۔
ارے……! آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟ کیا آپ کو ہمارے حکم ران یاد آ گئے…… جن پر آپ بار بار اعتماد کرتے ہیں اور ہر بار وہ آپ کو نئے نئے طریقوں سے لوٹتے ہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔