پرویز رورا (مرحوم) ایک سادہ اور صاف گو انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے۔
مینگورہ شہر میں بادشاہ صاحب چم سے نیچے محلہ میرخانخیل بوستان آباد ہے۔ مین بازار مینگورہ کے عقب میں آباد اس اخوت و محبت کے نمونے کو تجارتی اثر سے یوں متاثر کیا گیا کہ آبائی محلے اور انتہائی معتبر اصلی آبادی معاشی چکا چوند کے آگے ہتھیار ڈال گئی۔ آبائی آشیانے گرا کر دُکانیں اور پلازے بنانے پر مجبور ہوگئے۔ ترقی یوں آئی کہ آبادیوں نے صحراؤں میں سکون ڈھونڈنا شروع کیا۔
محلہ میرخانخیل سے پہلی ہجرت بیلدر ماما کے خاندان نے کی تھی۔ تب وہ معاشی چکا چوند سے متاثر ہو کر نہیں گئے تھے، بل کہ وہ پورے علاقے کو سوگوار کرکے کھلی جگہ پر بڑے مکان بنا کر گئے تھے۔ ہاں، مگر محلے کے اندر پہلی باقاعدہ دُکانیں اُنھوں نے مکان کے باہر بنائی تھیں، جس کا مقصد کاروباری نہیں تھا شاید، کیوں کہ لمبے عرصے تک وہ ویران پڑی رہیں۔
بیلدر ماما، پرویز رورا کے چچا زاد بھائی تھے۔ دہائیوں بعد جب واقعی علاقہ بالکل کمرشل ہوا، تو بیٹوں نے رورا سے کہا کہ ہم بھی اپنے کھیتوں میں بڑے بڑے مکان اور حجرہ بناکر چلتے ہیں۔ رورا کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں تھی اور کہا کہ میری لاش اس گھر سے نکلے گی۔
رورا مضبوط اعصاب کے مالک اور صحت مند انسان تھے، مگر جوان بیٹے کی موت نے اُن کو کم زور کر دیا، بل کہ انھیں توڑ کر رکھ دیا۔ وہ جیسے اندر سے کھوکھلے ہوگئے۔ اُن کے آنسو اور رونے کی گونج اب بھی اُن گلیوں میں ہر آبائی اور اصلی رہایشی کو سنائی دیتی ہے، جب اُس کا گزر ان گلیون سے ہوتا ہے۔
رورا اپنے کہے ہوئے پر قائم رہے۔ مکان بھی بن گئے، مگر وہ کہی ہوئی بات پر قائم تھے اور قائم رہے ۔ اُن کو اپنا بچپن، جوانی اور بڑھاپا اُن گلیوں میں نظر آتا تھا اور وہ کسی کو جانے سے نہیں روک سکتے تھے، مگر خود کو آخری سانس تک وہی رکھا۔
شمشیر علی خان میرخانخیل اُسی پرویز رورا کے بڑے صاحب زادے ہیں۔ گورنمنٹ ہائی سکول حاجی بابا سے تعلیم کی ابتدا کرکے قانون کی ڈگری کے حصول تک شمشیر علی خان کی تربیت اور راہ نمائی اُس مضبوط اعصاب کے مالک باپ نے کی۔ اُن کو گلیوں کے احترام کا سبق اُن کے والد نے دیا، جو احترام کو اولین ترجیح سمجھتے تھے۔
منزرے لالا، قاضی بابا، مرزا صاحب، بیلدر ماما، ایم جی آر، غلام غوث اور اِرد گرد کے ماحول میں سب کی اچھی باتیں، تحمل، بردباری، تہذیب، نفاست، بلاغت، سمجھ اور ملن ساری والد صاحب نے گویا شمشیر علی میں انڈیل دی۔ فلسفۂ عدم تشدد سے متاثر تھے اور پوری زندگی اسی پر گام زن رہے۔
شمشیر علی، عوامی نیشنل پارٹی کے فعال کارکن اور راہ نما بنے۔ ان کی اچھی باتیں، معنی اور مفہوم سے بھرپور تقاریر بڑے غور سے سنی جاتیں۔ ایک دفعہ قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے درخواست تحریر کی، لیکن معلوم نہیں کہ جمع بھی کرائی یا نہیں…… مگر بغیر کسی لالچ، غرض اور مادی فوائد کے عوامی نیشنل پارٹی کے اٹوٹ انگ رہے۔
بار کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک فعال رُکن کی حیثیت سے زبردست کردار ادا کیا۔ وکالت ایک پیشہ ہے، ایک قابلیت ہے، لیکن ایک انتہائی مہارت بھی ہے۔ ڈگری، قابلیت، محنت اور اعتماد لے کر پیشہ اپنانے والے اگر مہارت حاصل نہ کرپائیں، تو سینئر تو بن جاتے ہیں، مگر کام یاب وکیل نہیں بن پاتے۔ شمشیر علی خان ایڈوکیٹ نے ہر جز کو سنجیدگی سے لے کر اسے مہارت سے سنوارا۔ وہ گویا ایک بنچ مارک ہیں، ہر نئے وکیل کے لیے جس نے ابھی پیشے کی شروعات کی ہے۔
شمشیر علی خان میرخانخیل ایڈوکیٹ اصلی مینگروال ہیں۔ کسی کو مینگورہ میں مینگورہ کی تہذیب، فراخ دِلی اور اُخوت کو محسوس کرنا ہو، تو وہ شمشیر علی خان ایڈوکیٹ کو ایک دفعہ ضرور ملے۔
اُن کی تربیت مینگورہ شہر کی مشترکہ اقدار نے کی ہے۔ اُس درس گاہ نے کی ہے، جس کو آج کے شہر نے بھلا کر کاروباری مراکز میں تبدیل کردیا ہے۔ جہاں سونا اُگتا تھا، اب وہاں سونا فروخت ہوتا ہے۔ جہاں لوگ سکون سے سوتے اور اطمینان سے جاگتے تھے، اَب وہاں سونا پگھلتا اور مہارت سے زیورات میں ڈھلتا ہے۔
ایک ’’سونے‘‘ نے دوسرے ’’سونے‘‘ کی جگہ لے لی ہے۔ اب وہ مہربان اور پُرسکون گلیاں مضطرب اور پُرشور بازار ہیں، مگر ان میں سے بچے کھچے کچھ لوگ ماضی کے امین اور شاہد ہیں۔ ان سے مل کر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے۔
جاکر ان کی آنکھوں، شخصیت، اظہار، لہجے اور اطوار میں پرانا مینگورہ دیکھ لیں۔ وہ مجسم تاریخ ہیں، ایک طرح سے ثبوت ہیں ۔
وہ جن کو شہر سے عقیدت ہے، اب شہر کے بچے کو ’’عظیم الشان‘‘ حالت میں دیکھ لیں۔ یہ شہر (مینگورہ) کبھی بہت زرخیز اور مہربان تھا۔
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔