90ء کی دہائی کی بات ہے، کھیلتے کھیلتے ہم دوستوں میں سے ایک بری طرح زخمی ہوا۔ دراصل آنکھ مچولی کھیلتے اور سرپٹ دوڑتے ہوئے ایک دوست کسی گھر کے ایک کھلے دروازے کے ساتھ زور سے ٹکرا گیا۔ نتیجتاً اُس کے سر سے خون فوارے کی طرح جاری ہوا۔ ہم باقی ماندہ دوست سہم گئے۔ اتنے میں ایک دوست نے جیب سے رومال نکالا اور سر کے زخمی حصے پر رکھ کر اُسے ’’وہاب عوامی ہسپتال‘‘ لے گئے۔ وہاں اُس کی مرہم پٹی کی گئی۔ جب پیسے دینے کا وقت آیا، تو ہم ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے۔ کسی کی جیب میں چونی تھی، تو کسی کی اَٹھنی اور بِل کوئی آٹھ دس روپے کے لگ بھگ تھا۔ بہ مشکل دو ڈھائی روپیا ہی جوڑ پائے ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب نے خندہ پیشانی سے وہ کم پیسے وصول کرتے ہوئے نصیحت فرمائی: ’’جیب میں پیسے نہ ہوں، تو احتیاط لازم ہوجایا کرتی ہے۔‘‘
یہ تھی ڈاکٹر عبدالوہاب (مرحوم) سے میری پہلی ملاقات۔ اس کے بعد کئی بار میرے والد (مرحوم) نے طبیعت کی ناسازی کی بنا پر مجھے وہاب عوامی ہسپتال کا راستہ دکھایا۔
ڈاکٹر عبدالوہاب (مرحوم) جنھیں اہلِ مینگورہ ’’چاڑا ڈاکٹر صاحب‘‘ کی عرفیت سے جانتے ہیں، قومی شناختی کارڈ کے مطابق 1936ء کو مینگورہ شہر میں پیدا ہوئے۔ شناختی کارڈ میں دن اور مہینا درج نہیں، نہ اُن کے اہل و عیال کو اس حوالے سے کچھ پتا ہی ہے۔ البتہ ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کے والدین منگلور کے رہنے والے تھے۔
طارق وہاب، ڈاکٹر عبدالوہاب (مرحوم) کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ طارق وہاب بھی پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور آج کل بوسٹن (امریکہ) میں مقیم ہیں۔ اُن کی شریکِ حیات بھی ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر طارق وہاب کے مطابق اُن کے والد (ڈاکٹر عبد الوہاب مرحوم) خیبر میڈیکل کالج کے اولین بیچ کے طالب علم تھے۔
ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کے بڑے بیٹے اختر وہاب کے مطابق ڈاکٹر صاحب (مرحوم) ریاستی دور میں سیدو ہسپتال میں فرائض انجام دیتے تھے۔ اس دوران میں دو بار اُن کا تبادلہ کروڑہ (شانگلہ) کرایا گیا، جس کے بعد اُنھوں نے اپنا پرائیویٹ ہسپتال کھولنے کا عزم کیا۔
ڈاکٹر طارق وہاب کے بہ قول: ’’مَیں وثوق سے تو نہیں کَہ سکتا کہ وہاب عوامی ہسپتال ملاکنڈ ڈویژن کا اولین پرائیویٹ ہسپتال تھا، مگر یہ دعوا ضرور کروں گا کہ ڈاکٹر صاحب (مرحوم) ملاکنڈ ڈویژن کے اولین پرائیویٹ ہسپتالوں میں سے ایک کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔‘‘
فیاض ظفر کہتے ہیں کہ وہاب عوامی ہسپتال دراصل ایک کلینک، لیبارٹری، میڈیکل سٹور اور باقاعدہ وارڈز پر مشتمل تھا۔
ڈاکٹر طارق وہاب کہتے ہیں کہ سنہ 70ء اور 80ء میں میڈیکل کے مختلف کورسز کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب (مرحوم) نے یورپ چھان مارا۔ پشتو، اُردو اور انگریزی کے علاوہ عربی، فرانسیسی اور جرمن زبانیں بھی سمجھتے تھے۔ ’’جرمن زبان سے تو اتنی رغبت تھی کہ وہ باقاعدہ اسے لکھ اور پڑھ بھی سکتے تھے۔ اپنے سفر کی باتیں اور خاص واقعات اکثر ہمارے ساتھ شیئر کرتے۔ وسیع النظر تھے۔ سائنس، ادب، مذہب جو بھی موضوع ہوتا، سیر حاصل گفت گو کرتے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالوہاب (مرحوم) کے مطالعے کا ذکر اکثر ہم اپنے محلے (محلہ امان اللہ خان) اور محلہ وزیر مال کے پڑھے لکھے جوانوں سے سنتے تھے۔ اس طرح مرحوم کے اُس وقت سوات کے ایک مقامی اخبار میں چھپنے والے مضامین سے بھی ان کے مطالعے اور علم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر طارق وہاب کہتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب (مرحوم) نے گھر میں ذاتی لائبریری قائم کر رکھی تھی، جس میں نادر کتب ذخیرہ کی ہوئی تھیں۔ ’ہیلتھ کئیر‘ کے علاوہ ’عربی زبان‘، ’مذہبی کتب‘ اور ’تفاسیر‘ ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کی لائبریری کا حصہ تھیں۔‘‘
ڈاکٹر عبدالوہاب (مرحوم) کے حوالے سے مشہور ہے کہ سحر خیز تھے۔ ڈاکٹر طارق وہاب کہتے ہیں کہ جیسے ہی صبح کا گجر بجتا، اُٹھ جاتے۔ نماز پڑھنے کے بعد بعد واک کے لیے گھر سے نکل پڑتے۔ واک سے واپسی پر گھنٹا، ڈیڑھ گھنٹا جتنا بھی وقت ملتا، مختلف کتب کے مطالعے میں غرق رہتے۔ اس طرح جب ہسپتال سے شام کے وقت واپس گھر آتے۔ کھانا تناول فرمانے کے بعد پھر کوئی نہ کوئی کتاب اُٹھالیتے۔
دیگر بھائیوں کی طرح ڈاکٹر طارق وہاب بھی مانتے ہیں کہ والد کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کا رویہ دوستانہ تھا۔ ’’بیٹیوں کی تعلیم پر زور دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بیٹیوں کی شادی کے بعد بھی اُن کے بارے میں پوچھتے رہتے کہ اُن کا تعلیمی سلسلہ کہیں رُک نہ گیاہو؟‘‘
واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالوہاب (مرحوم) کی ایک بیٹی طب کی تعلیم (میڈیکل) حاصل کرچکی ہیں جب کہ دوسری استانی ہیں۔ ڈاکٹر طارق وہاب مانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے والد بھی تھے، دوست بھی تھے اور سب سے بڑھ کر ایک استاد تھے۔ ’’اُن کی سحر انگیز شخصیت کا اثر ہے کہ آج امریکہ میں میری تین بھانجیاں اور دو بھانجے ڈاکٹر ہیں۔ ایک بھانجی کی بیٹی انگلینڈ میں ڈینٹسٹ ہے۔ اس وقت میرا ایک بھتیجا اور ایک بھانجی میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔‘‘
طلبہ کا ہمیشہ فری علاج کرتے تھے۔ جن طلبہ کے پاس پیسے نہ ہوتے، ڈاکٹر صاحب انھیں کہتے کہ فکر مت کریں، پیسے بھلے نہ دیں، مگر تعلیم ادھوری مت چھوڑیں۔
اہلِ محلہ اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہاب عوامی ہسپتال کے ارد گرد کی مسجدوں میں دینی علوم کی خاطر رہنے والے طلبہ (جنھیں عرفِ عام میں ’’طالب‘‘ یا ’’چنڑے‘‘ کہتے ہیں) کا نہ صرف مفت علاج کرتے، بل کہ انھیں ادویہ بھی مفت دیا کرتے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر طارق وہاب اپنا ایک تجربہ کچھ ان الفاظ میں شیئر کرتے ہیں: ’’ایک دفعہ مَیں کوہستان گیا تھا۔ وہاں کسی نے مجھے بتایا کہ آپ سے کوئی دینی عالم ملنا چاہتا ہے۔ وہ بڑی گرم جوشی سے مجھ سے ملے اور کہا کہ تم ایک عظیم انسان کے بیٹے ہو۔ اُن کے بہ قول جب وہ مینگورہ میں تحصیلِ علم کی غرض سے مقیم تھے، تو ایک دفعہ بیمار پڑگئے۔ دوست اُنھیں ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کے ہسپتال لے آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اُن کا علاج کیا، بل کہ اُن کی کم زور صحت کو دیکھتے ہوئے اُنھیں کچھ کھلایا پلایا بھی۔ نیز تاکید کی کہ جب بھی وہ بیمار پڑیں، تو سیدھا ہسپتال آیا کریں۔ نیز اُن سے وعدہ لیا گیا کہ وہ تعلیم ادھوری نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
اسی سلسلے کی ایک کڑی سوات کے سنیئر صحافی فیاض ظفر یوں جوڑتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب (مرحوم) صرف نادار طلبہ و طالبات ہی کا مفت علاج نہیں کرتے تھے، بل کہ دور سے آئے ہوئے غریب مریضوں سے بھی فیس نہیں لیا کرتے تھے۔ شنید ہے کہ کئی بار تو لاچار مریضوں کو واپس گاؤں جانے کا کرایہ بھی اپنی جیب سے دیا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب (مرحوم) علاج سے زیادہ پرہیز اور ڈائٹ پر زور دیا کرتے تھے۔ اپنے مریضوں سے کہتے کہ دوا سے زیادہ خوراک ضروری ہے۔ کھانے میں ہمیشہ احتیاط برتیں۔ بسیار خوری سے بہتر ہے کہ کم کھائیں، مگر اچھا کھائیں۔ اُس وقت سوات کے ایک مقامی اخبار کے لیے جو مضامین لکھتے تھے، وہ بھی صحت کے حوالے سے ہوتے تھے۔
فیاض ظفر، ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کے اُن دنوں کے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ایک دفعہ کام جلد نمٹانے کے بعد میں پیسٹر کے کمرے میں گیا۔اخبار کے ادارتی صفحے پر نظر پڑی، تو ایک مضمون ’جلق‘ کے حوالے سے نظر سے گزرا۔ جس میں مذکورہ عمل کا طبی جائزہ بڑی مہارت سے لیا گیا تھا۔ مَیں نے پیسٹر سے کہا کہ یہ مضمون پڑھا ہے؟ اُن کا جواب ’نفی‘ میں تھا۔ مَیں سیدھا ایڈیٹر کے پاس گیا۔ اُنھوں نے بھی نہ صرف لاعلمی کا اظہار کیا، بل کہ یہ تک کہا کہ اُنھیں اس مخصوص لفظ کے معنی تک نہیں آتے۔ اس کے بعد سیدھا اخبار کے چیف ایڈیٹر کے دفتر گیا۔ چیف ایڈیٹر صاحب کا جواب سنتے ہی میری ہنسی چھوٹی۔ فرمانے لگے، ڈاکٹر صاحب صحت کے حوالے سے لکھا کرتے ہیں۔ یہ ’جلق‘ ضرور کسی سبزی کا نام ہوگا۔ مَیں نے جب مذکورہ لفظ کے معنی انھیں بتائے، تو اپنے دفتر سے پیسٹر کو آواز دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا مضمون اُتار کر اس کی جگہ کوئی اور مضمون لگا دو۔‘‘
ایک کتاب ’’آپ کی صحت‘‘ کے عنوان سے بھی لکھی تھی، جس میں صحت کے اُمور پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ ڈاکٹر طارق وہاب کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کی 7 کتابیں شائع ہوئی تھیں، جن میں دو کے ٹائٹل ’’آپ کی صحت‘‘ اور ’’مسرت کے لمحات‘‘ ہی یاد ہیں اور بس!
دوسری طرف فیاض ظفر، ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کو ماہرِ جنسیات مانتے ہیں۔ ’’اُن کی 3 کتابیں ’مسرت کے لمحات‘، ’آپ کی صحت‘ اور ’پیاسی عورت‘ کا مطالعہ کرچکا ہوں۔ غالباً مسرت کے لمحات ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کی ایسی تالیف تھی جس میں دنیا بھر کے ماہرینِ جنسیات کے مختلف تجربات کا ذکر تھا۔‘‘
ڈاکٹر عبدالوہاب (مرحوم) کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا اختر وہاب ہے، جو سوات میں مقیم ہے۔ منجھلا بیٹا ارشد وہاب ہے، جو اسٹریلیا میں مقیم ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ان کا فیلڈ ہے۔ سب سے چھوٹا بیٹا طارق وہاب ہے، جو ڈاکٹرہے۔
ایک ماہر معالج، صوم و صلوٰۃ کے پابند، کئی عمروں اور کئی بار حج کی سعادت حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالوہاب کو جمعہ کی شام 5 دسمبر 2003ء کو بڑی سفاکی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ چارباغ کے نوید اقبال ایس پی (ر) اُس وقت سپیشل برانچ کے انچارج تھے، مذکورہ قتل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالوہاب کو اولاً اپنے ہی ہسپتال (وہاب عوامی ہسپتال) میں باقاعدہ زبردستی کے ساتھ اسٹریچر پر لٹایا گیا۔ ثانیاً کسی تیز دھار آلے سے اُن کا گلہ کاٹا گیا۔ ثالثاً قاتل، ڈاکٹر صاحب کا جسم ٹھنڈا ہونے تک ہسپتال میں موجود بھی رہے۔‘‘
فیاض ظفر کہتے ہیں کہ پولیس انوسٹی گیشن میں ایسا کوئی نکتہ ہاتھ نہیں آیا، جو ڈاکٹر عبدالوہاب کے قتل کی وجہ بنتا۔ ہاں، البتہ ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کی اُس وقت مارکیٹ میں موجود تین کتابوں کو تحویل میں لے کر مینگورہ تھانے کے مال خانے میں سیل کیا گیا۔
محترم فیاض ظفر اور ڈاکٹر طارق وہاب دونوں ڈاکٹر عبدالوہاب کے قتل کو سوات میں دہشت گردی کا آغاز گردانتے ہیں۔
بہ قولِ رحمان فارسؔ
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔