قوم پرستی اور نسل پرستی ایک چیز نہیں

Blogger Sajid Aman
 ’’قوم پرستی‘‘ اور ’’نسل پرستی‘‘ ہرگز ایک چیز نہیں، بل کہ کئی معنوں میں متضاد ہیں ۔ 
’’قوم پرستی‘‘ محبت، اُخوت، بھائی چارے، اتحاد، اجتماعی مفادات، اشتراکِ باہمی اور اجتماعی حرمت کی تربیت دیتی ہے…… جب کہ ’’نسل پرستی‘‘ نسلی امتیاز، تنگ نظری، عدم مساوات، خود پسندی، ذاتی مفادات، انفرادی برتری، نفرت، تعصب، عدم برداشت وغیرہ جیسی تقسیم در تقسیم کا تقاضا کرتی ہے، یعنی ’’نسل پرستی‘‘ انسان کو فسطائیت کے آخری درجوں پر پہنچا دیتی ہے۔ 
بدقسمتی سے قوم پرستی اور نسل پرستی کے فرق کو دانستہ و غیر دانستہ ختم کرنے کی کوشش ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے۔ یوسف زئی علاقوں میں اس کی مثال زیادہ شدید ہے اور اس کی ایک اہم وجہ انگریزوں کی حکومت کو درپیش مسائل تھی، جن میں مقامی آبادیوں کی مسلح جد و جہد سرپرست تھی۔ اس ’’حریت پسندی‘‘ (یا بغاوت) میں پختون قبائل سرپرست رہے اور پختونوں میں یوسف زئی حقیقی اپوزیشن کے طور پر تھے، جن کو انگریز سرکار نے تقسیم در تقسیم کیا۔ 
اندرونی طور پر نواب، خان بہادر وغیرہ بناکر یوسف زئی کو میدانی علاقوں میں بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ نفرت یہاں ختم نہیں ہوئی، بل کہ یوسف زئی میدانی علاقوں میں مہمند، صافی وغیرہ اقوام کو بلاکر آباد کیا اور نوابوں کی جاگیرداری اور اپنے اقتدار کو دوام بخشا۔ ساتھ ہی یوسف زئی غالب اکثریت کو دبایا گیا۔ غیر فطری طور پر ان کی اکثریت کو کم کیا گیا۔ 
جب کہ غیر میدانی علاقوں میں بالواسطہ حکومتوں یا نوابی ریاستوں سے ایک ضمانت لی، ’’انگریز سرکار کے خلاف بغاوت نامنظور!‘‘ 
یوسف زئیوں کو ’’زر، زن اور زمین‘‘ کی محبت میں ایسا الجھا دیا کہ وہ ان چیزوں کو بنیاد بناکر بڑے یا چھوٹے کہلائے۔ ایک الگ شناخت جو یوسف زئی قبائل کے اندر تھی، یعنی ’’دریا دلی‘‘، ’’اعتماد‘‘، ’’بھروسا‘‘، ’’شجاعت‘‘، ’’اجتماعیت‘‘ اور ’’وفا‘‘…… ان کو زائل کرکے ’’نسل پرستی‘‘ اور فسطائیت کی طرف دھکیل دیا گیا۔ 
خیر، تاریخی جبر کا یہ ایک اَلگ پہلو ہے، جس پر بات کم ہوتی ہے۔ بات ضرور ہونی چاہیے بغیر تعصب کے…… انصاف کے ساتھ اس کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔ فی الحال بابوزی شجرۂ نصب پڑھیں اور خود کو تلاش کریں۔ اگر نہیں بھی ملتے، تو کوئی بات نہیں۔ سوات اور بابوزی سر زمین پر صرف بابوزی یوسف زئی آباد نہیں، بل کہ دیگر یوسف زئی قبائل کے ساتھ قدیم سواتی، گجر اقوام اور دیگر بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ 
ایک محقق کے مطابق جب یوسف زئی سوات پہنچے، تو ان کی آبادی باقی موجود اقوام کے مقابل ایک نسبت دس تھی، یعنی ایک یوسف زئی اور دس دیگر اقوام۔ قومی انضمام کا ارتقا جاری رہا۔ خیر، یہ ایک نظریہ ہے جس کو جدید سائنسی تحقیقات سے تصدیق یا مسترد کیا جاسکتا ہے۔ 
ایک سوال آیا میرے بارے میں، تو مَیں یوسف زئی اور بابوزئی دونوں ہوں۔ یہاں نِکات صرف بحث، سوچ اور تحقیق کو دوام دینے کے لیے دیے جارہے ہیں اور نسل پرستی کی شدید حوصلہ شکنی مقصود ہے اور بس!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے