کبھی خواب نہ دیکھنا (پانچویں قسط)

Blogger Riaz Masood

(فضل رازق شہابؔ صاحب کی انگریزی میں لکھی گئی خود نوشت "Never Ever Dream Again” کا اُردو ترجمہ، جسے لفظونہ ڈاٹ کام پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے)
شگئی سکول کو، اضافی تعمیرات کرکے، ہائی اسٹینڈرڈ پر اَپ گریڈ کر دیا گیا اور سنٹرل جیل، سیدو شریف کو(پرانی عمارت کو مناسب تبدیلیوں اور اضافوں کے بعد) ودودیہ ہائی سکول میں تبدیل کر دیا گیا۔ والی صاحب کے حکم کے مطابق ’’برساتی نالہ‘‘ (جسے خوڑگئی کہا جاتا ہے) طلبہ کے لیے حد بندی لائن گردانا گیا۔ جنوب میں رہنے والے طلبہ کو ہائی سکول شگئی میں پڑھنے کے لیے کہا گیا اور شمالی طرف والے طلبہ کو نئے ودودیہ ہائی سکول میں شامل ہونے کو کہا گیا۔ ہم، افسر آبادی زیادہ خوش قسمت رہے۔ کیوں کہ ہمارا اسکول اپنے اپنے گھروں سے پانچ منٹ کی پیدل سفر پر تھا۔
لیکن ایک بات جس نے مجھے پریشان کیا، وہ یہ تھی کہ ہماری چھٹی جماعت کو "A” اور "B” سیکشنوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس طرح میرے بھائی مجھ سے جدا ہوگئے۔ ہم نے کوشش کی، لیکن حکام نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔ یوں مَیں نے اپنی حفاظتی ڈھال کھو دی۔ مجھے جارحانہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن زیادہ تر اساتذہ میرے والد کو جانتے تھے اور اُنھوں نے جلد ہی میری پریشانیوں کا سدِ باب کر دیا۔
وہاں مختلف مزاج اور عمر کے لڑکے تھے اور مجھے اُن سے بچ کے رہنا پڑتا۔ میرے بھائی مجھے بریک ٹائم میں اپنے ساتھ رکھتے اور گھر بھی ساتھ جاتے۔
1956ء میں ہم نے پشاور یونیورسٹی سے مڈل اسٹینڈرڈ کا امتحان پاس کیا۔ ہمیشہ کی طرح میرے بھائی نے مجھے چند نمبروں سے پیچھے چھوڑ دیا۔
یہ میری زندگی میں تبدیلی کا اہم لمحہ تھا۔ شیر خان نے میرے والد کو فضل وہاب کو بمبئی بھیجنے پر زور دیا۔ میرے والد نے یہ سوچ کر، کہ شاید وہ اپنے بیٹے کو واپس لے آئے، میرے سگے بھائی فضل وہاب کو ہندوستان بھیجنے پر راضی ہوگئے۔ میرے بڑے بھائی میرے والد کی ہو بہ ہو کاپی تھے۔ پختہ مزاج والے، دیانت دار، پرہیزگار، مضبوط کردار والے، بے باک، مخلص اور کافی ہوش یار۔ وہ کم ہنستے تھے، گندے الفاظ سے نفرت کرتے تھے…… نہ صرف اپنے لیے بل کہ دوسروں کے لیے بھی۔ اُنھیں مِزاح پسند تھا، لیکن بے ہودہ قسم کے لطیفے نہیں سناتے تھے۔
میرے بچپن کے دنوں میں، میری آنکھوں میں اکثر گرمیوں میں ہر سال درد رہتا تھا۔ میرے بھائی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روزانہ ہسپتال لے جاتے۔ اُن دنوں آنکھوں کے زخموں کا علاج پرانے زمانے کے عجیب و غریب طریقوں سے کیا جاتا تھا۔ ایک میل نرس آنکھوں کو باہر اور اندر بہت گرم پانی سے دھوتا، پھر ہر آنکھ میں دوائی کے کچھ قطرے ڈالتا اور مریض کی آنکھوں پر پٹی باندھتا۔ پہلے جراثیم سے پاک روئی آنکھوں پر رکھی جاتی اور پھر صاف سفید کپڑے سے باندھ دیتے۔
اُن کی غیر موجودگی میں، اَب میں دیکھ نہیں سکتا تھا، اس لیے کہ میرے بھائی میرا ہاتھ پکڑ کر میری راہ نمائی نہیں کرسکتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی اور وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر گھر لے جاتے، تو کبھی وہ مجھ سے کودنے کے لیے کہتے، مجھے بتاتے کہ یہاں نالہ سا ہے، اس لیے مَیں چھلانگ لگا تھا، مگر وہ ہم وار میدان ہوتا ۔ وہ مجھ پر اور میری بے بسی پر ہنستے…… لیکن وہ میرے محافظ تھے۔ اگلے دن جب وہ بمبئی روانہ ہوئے، تو مجھے اُن کی غیر موجودگی کا شدید احساس ہوا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے