حکومتِ خداداد یوسف زئی ریاستِ سوات و متعلقات کے بانی میاں گل عبدالودود معروف بہ باچا صاحب میانگل عبدالخالق کے بیٹے اور اخوند آف سوات عبدالغفور الملقب بہ سیدو بابا کے پوتے تھے۔
یہاں پر ہم سوات کی تاریخ نہیں دہراتے۔ صرف اُن کے بارے میں چند ایسے واقعات کا ذکر مقصود ہے، جو میری ذاتی مشاہدے میں آئے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بادشاہ صاحب نے تاج و تخت سے دست برداری کے بعد اپنی توانائیاں علومِ اسلامی اور تاریخی کتب کی ترویج و اشاعت پر صرف کیں۔ اُنھوں نے نہایت عالم و فاضل اشخاص کی خدمات سے اس سلسلے میں بہت فائدہ اُٹھایا۔ جو مختلف کتابیں اُنھوں نے پشتو میں ترجمہ کروا کر شائع کروائیں اور مفت تقسیم کیں، اُن میں محمد قاسم فرشتہ کی کتاب ’’تاریخِ فرشتہ‘‘، حکمت و دانائی کا خزینہ ’’انوارِ سہیلی‘‘ اور دینی مسائل جو عام فہم پشتو میں دو جلدوں پر مشتمل ہے یعنی ’’فتاوی ودودیہ‘‘ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔
باچا صاحب ورزش کے بہت رسیا تھے۔ جب مرغزار میں قیام کرتے، تو علی الصباح بلا ناغہ سفید محل سے پہاڑی کے ٹاپ تک چڑھتے اور دم لینے کے بعد واپس اُتر آتے۔ ضعیف العمری کی وجہ سے بعد میں یہ ورزش ترک کردی۔
شکار ہمیشہ اُڑتے پرندوں کا کرتے اور کبھی کوئی فائر خالی نہیں گیا۔ ایک دن مَیں، عبدالقیوم اور خلیفہ مرغزار گئے تھے۔ باچا صاحب لان میں سنگِ مرمر کی کرسی پر بیٹھے تلاوت کر رہے تھے۔اتنے میں پنجاب کی کسی کالج کی لڑکیاں اپنی بس سے اُتر کر محل کی سیڑھیوں کی مدد سے اوپر آئیں۔ باچا صاحب کو دیکھا تو ٹھٹک کر کھڑی رہ گئیں۔ اُن کے بلانے پر قریب آگئیں اور ارد گرد کھڑے ہوکر تصاویر بنوانے لگیں۔ پھر باچا صاحب نے ایک ملازم سے کہا کہ ان کو بتاؤ کہ میں روز اس پہاڑ پر چڑھتا رہا ہوں، جب یہاں قیام کرتا ہوں۔
باچا صاحب چوں کہ درجِ بالا کتابیں مفت تقسیم کرواتے تھے۔ مَیں شاید پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا، ایک دن مَیں عقبہ چلا گیا، بالکل اکیلے۔اُن کے ہاں جانے پر تو کوئی پابندی نہیں تھی، سو مَیں سیدھا اندر چلا گیا۔ وہ لان میں بیٹھے تھے اور ایک اردلی ان کی نشست کے پیچھے کھڑا تھا۔ مَیں قریب گیا اور بنا کچھ بولے خاموش کھڑا ہوا۔ اُنھوں نے اپنی باریک اور تیز آواز میں پوچھا: ’’سہ دی وڑوکیہ؟‘‘ (یعنی کیا کام ہے چھوٹے؟) مَیں نے کہا، ’’جی! مجھے انوارِ سہیلی چاہیے؟‘‘ اردلی نے جھڑک کر کہا: ’’بھاگ! شیطان کہیں کا۔ کتابیں ختم ہوچکی ہیں!‘‘ باچا صاحب اردلی کے اس عمل سے بہت ناراض ہوگئے۔ اس کو جھڑک دیا اور کہا: ’’جاؤ! میرے کمرے میں میرے سرہانے تپائی پر جو کتاب پڑی ہے، وہ لاکر اس بچے کو دے دو!‘‘
پھر رُخِ انور میری طرف پھیرتے ہوئے نرم لہجے میں کہا: ’’یہ مَیں تم کو اپنی استعمال کی کتاب دے رہا ہوں!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔