عدم برداشت، مہنگائی، بدامنی اور حصولِ روزگار میں بے یقینی کی صورتِ حال کے باعث نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ دورِ جدید کی سائنسی ایجادات نے بھی سہولیات کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کو ذہنی تناو، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کردیا ہے اور تیز ترین حالاتِ زندگی نے انسان کو دُکھ، غم، پریشانی، عدم تحفظ کا احساس دے کر خوشیاں چھین لی ہیں۔ بیش تر لوگ موجو دہ طرزِ زندگی اور اس کے روز و شب سے خوش نہیں۔ ان حالات میں رشتوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں اور ہر تیسرا فرد ڈپریشن کا شکار دِکھائی دیتا ہے، لیکن یاد رکھیے حالات کیسے ہی ہوں، مرنا نہیں جینا بہادری ہے۔ خود کُشی بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے، جب کہ بلند حوصلے، ہمت، پختہ عزم، صبر اور ایمان کی طاقت کے ساتھ ہر طرح کے حالات سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کے محروم لوگوں میں اپنی ذمے داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کم زوری کے باعث خود کُشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں بھی خود کُشی کے واقعات میں خوف ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ خود کُشی حرام موت ہے، جو کہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں۔ خود کُشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس فعلِ حرام کا مرتکب اﷲ تعالا کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں، بل کہ اﷲ کی عطا کردہ امانت ہے۔ اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ بہ ہر صورت زندگی کی حفاظت کریں۔ دُکھ، پریشانیاں، مسائل اور آزمایشیں زندگی کا حصہ ہیں۔ ان میں سے بیش تر تو انسان کے اپنے اعمال، افعال، اقوال کی وجہ سے پیش آتی ہیں، جب کہ چند ایک خالقِ کائنات کی طرف سے آزمایش ہوتی ہیں۔ اﷲ تعالا اپنے بندوں کو آزمایش میں ڈال کر اُن کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے۔ جو لوگ آزمایش میں پورا اُترتے ہیں، وہ اﷲ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہوجاتے ہیں، اُن میں سے چند خود کُشی کو راہِ نجات سمجھتے ہوئے اپنا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنا اور اپنے اہل و عیال و خاندان کا دنیاوی نقصان کرتے ہیں، بل کہ اپنی آخرت بھی تباہ کرلیتے ہیں۔
بہترین انسان وہ ہے جو کہ مشکل حالات کا جائزہ لے، اسباب کو تلاش کرے اور اُن کا مداوا کرے۔ مشکلات کو آسانیوں میں بدلے اور اللہ تعالا پر کامل توکل اور بھروسا کرتے ہوئے مایوسی کی بہ جائے صبر و رضا میں زندگی بسر کرے۔ قرآنِ مجید فرقان حمید کی سورۃ الشرح میں تکرار کے ساتھ دو آیات ہیں کہ ’’بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ تو بس اللہ پر یقین رکھیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
ہم وہ خوش نصیب ہیں، جو مسلمان پیدا ہوئے۔ ہمیں وہ دین ملا جو کہ مکمل ضابطۂ حیات ہے، مگر المیہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی اَب خود کُشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 25 فی صد افراد ڈپریشن، ذہنی دباو اور دماغی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جن میں زیادہ تعدادنوجوانوں کی ہے۔ ہمارے ہاں خود کُشی کی وجوہات میں معاشرے میں عدم برداشت، خانگی تنازعات، غربت، مہنگائی اور معاشی صورتِ حال، پڑھائی میں اچھے گریڈ نہ لانا، گھریلو جھگڑے، پسند کی شادی نہ ہونا اور آج کل سائبر کرائمز کے ذریعے لڑکے لڑکیوں کو تصاویر یا ویڈیوز کے لیے بلیک میل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
ماہرینِ نفسیات نے خود کُشی کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تنہائی، چڑچڑا پن، شرمندگی، نشہ آور اشیا کا استعمال اور ایسی باتیں جو شرمندگی یا تکلیف کاباعث بنیں، انسان کو ذہنی بیماریوں کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ایسے میں اہلِ خانہ کی توجہ اور ماہرِ نفسیات سے رابطہ ضروری ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی میں مخلص دوستوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ چاہے وہ زیادہ نہیں، تو ایک دو ہی ہوں۔ جن سے آپ دل کی ہر بات کَہ سکیں۔ کیوں کہ جب دل پر مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، تبھی دماغ آپ کو زندگی اور موت کی کش مہ کش میں مبتلا کرتا ہے اور دماغ ایسے کیمیکل پیدا کرتا ہے، جو آپ کو خود کُشی کرنے پر اُکساتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دل پر بوجھ نہ بننے دیجیے اور اس کا سب سے آسان نسخہ اللہ کو یاد کرنا، اُس کا شکر ادا کرنا اور اُس پر بھروسا کرنا ہے۔
خود کُشی اسلام میں حرام قرار دی گئی ہے۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خود کُشی کرلی، وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اُس میں ہمیشہ پڑا رہے گا۔ اور جس نے زہر پی کرخود کُشی کرلی، وہ زہر اُس کے ساتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں وہ اُسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا۔ اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خود کُشی کرلی، تو اُس کا ہتھیار اُس کے ہاتھ میں ہوگا اورجہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔ (صحیح بخاری)
خود کُشی جیسے قبیح عمل کو روکنے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا کہ یہ عارضی زندگی ہمیں ایک بار ملی ہے اور اسی میں کیے گئے اعمال کا نتیجہ ہمیں آخرت میں ملے گا۔ ہمیں زندگی کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہوگا۔ دوسروں میں مثبت سوچ پیداکرنی ہوگی۔ اُمیدوں کے دیے جلانے ہوں گے۔ اپنے مال کی پوری زکوٰۃ دینی ہوگی۔ ضرورت مندوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ کسی ایک کی ذمے داری نہیں، بل کہ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے۔
ہمیں اُن اسباب کا بھی سدِباب کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے لوگ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو یہ احساس دلانا ہوگاکہ دنیا کی سب سے قیمتی شے اُن کی جان ہے اور ہمیں خود کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے۔ خود کو زندہ رکھنے کی چاہ میں ہی انسان جنگلوں سے نکل کر اس جدید دور تک آیا، لیکن مایوسی اور عدم برداشت کی بہ دولت آج انسان اس زندہ رہنے کی چاہ سے محروم ہونے پر تلا ہے۔
خود کُشی کو روکنے کے لیے لمبے چوڑے وعظ، کانفرنسیں اور میٹنگ کرنے کی بہ جائے اگر زندہ رہنے کے جذبے کی آب یاری کی جائے، توبلا شبہ خود کُشی کو جڑ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔