یہ ہمارا المیہ ہے کہ جو تقریب یا پروگرام ایک مثبت اور فلاحی مقصد کے لیے منعقد کیا جاتا ہے، عام طور پر لوگ اُس کے اصل مقصد کو چھوڑ کر ایک غیر ضروری بحث میں اُلجھ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پروگرام فائدہ کی بہ جائے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ لوگ ایک غیر ضروری ایشو پر تقسیم ہوجاتے ہیں اور اُن کے درمیان نفرتیں اور فاصلے پیدا ہوجاتے ہیں۔
طلبہ اورطالبات کو اُن کے امتحانات اور کھیلوں میں اچھی کارکردگی دکھانے پر اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اُنھیں انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اکثر یہ انعامات ایک تقریب میں دیے جاتے ہیں، تاکہ وہ مستقبل میں زیادہ محنت سے کام لیں اور مزید کام یابیاں سمیٹیں۔
اس کا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ طلبہ اور طالبات جن کی کارکردگی امتحانات میں کم زور رہی ہو، اُن کو ’’موٹی ویشن‘‘ دِلاکر زیادہ لگن سے پڑھنے پر مائل کیا جاسکے۔
7 اگست کوخیبر پختون خوا کے تمام تعلیمی بورڈوں نے میٹرک کے نتیجے کا اعلان کیا۔ اُسی دن وزیرِ اعلا خیبر پختون خوا نے وزیرِ اعلا ہاؤس میں اُن طلبہ و طالبات میں انعامات اور میڈل تقسیم کرنے کے لیے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا تھا، جنھوں نے میٹرک کے امتحان میں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔
ملاکنڈ بورڈ کے نوٹیفکیشن کے مطابق میٹرک کے سائنس گروپ میں سُمن گل آف ہیرا پی ایچ ایس دیر ،عائشہ نور ملاکنڈ پبلک سکول درگئی اور عائشہ اقبال ایس پی ایس بٹ خیلہ نے بالترتیب پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔ اسی طرح آرٹس میں صداقت نور محسنات اکیڈمی دیر، شوکت خان (پرائیویٹ طالب علم) ساکن لوئر دیر اور حنا شہزاد محسنات دیر نے بالترتیب پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔
اپنے انعامات وصول کرنے کے لیے صداقت نور اور حنا شہزاد پختون خوا کے کئی علاقوں میں پردہ کے لیے استعمال ہونے والے برقع میں آئی تھیں۔ ہمارے گاؤں ڈھیرئی جولگرام کی عائشہ اقبال نے کالا برقع پہن رکھا تھا، جس کو ہم پرانے زمانے سے ’’پیشنی برقع‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ عائشہ اقبال کے ساتھ ایک خاتون نظر آر ہی تھیں، جو شاید عائشہ اقبال کی ماں تھیں، کیوں کہ وہ بہت خوش اور پُرجوش دکھائی دے رہی تھیں۔ اُس خاتون نے کویڈ کی کوکھ سے جنم لینے والا پردہ (منھ ماسک سے ڈھانپنا) کیا ہوا تھا۔ تقریباً تمام لڑکیوں اور ان کے ساتھ آئی ہوئی خواتین نے کویڈ والا پردہ کیا ہوا تھا۔ آج کل اکثر خواتین دوپٹا یا ’’پڑونے‘‘ (اوڑھنی) اُوڑھ کر ماسک پہن لیتی ہیں۔ میں تو عالم نہیں ہوں، لیکن ان تمام کا پردہ ’’سورۃ الاحزاب‘‘ میں پردے کے حکم کے عین مطابق لگ رہا تھا۔ ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں خواتین کے پردہ کرنے کا ورژن ان علاقوں میں تعلیمی اور ثقافتی حالات اور مذہبی رجحانات کے مطابق ہوتا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں کَہ سکتا کہ یہ اسلام کے احکامات کے منافی ہے۔
مذکورہ تقریب کے بعد سوشل میڈیا پہ پردے کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ دیر کے مدرسے سے میٹرک کرنے والی دو بچیوں کے برقع پر غیرضروری بحث چھیڑ کر اس مثبت تقریب کے مقصد کو ملیامیٹ کردیا گیا۔ جن لوگوں نے ہمارے پختون کلچر کے اس برقع کو غلط قرار دیا ہے، یا اس کا مذاق اُڑایا ہے، اُنھوں نے اُن بچیوں کی شخصی آزادی میں بے جا مداخلت کی ہے، جس کی اجازت ہمارا دین دیتا ہے، نہ پاکستان کا آئین دیتا ہے اور نہ ہماری پختون روایات ہی اس کی اجازت دیتی ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ اس معاملے میں زیادہ تر لبرل لوگ ملوث تھے۔ اگر واقعی کسی لبرل نے برقع کی مذمت کی ہے، تو اُس نے خود لیبرل ازم کے فلسفے کی نفی کی ہے۔ کیوں کہ لبرل ازم سیاسی اور اخلاقی فلسفہ ہے، جو افراد کے حقوق، آزادی، سیاسی مساوات، نجی ملکیت کا حق اور قانون کے سامنے سب کا برابر ہونے پر مبنی ہے۔
دوسری جانب وہ لوگ بھی بڑی زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں، جنھوں نے صداقت نور اور حنا شہزاد کی کام یابی کو پردے کی جیت قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے اُن دو بچیوں کی خدا داد صلاحیتوں اور محنت کو یک سر رد کرکے طلبہ و طالبات کو محنت نہ کرنے کی ترغیب دلانے کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ شان دار کام یابی پردے کی وجہ سے ہوتی، تو پھر اس اکیڈمی کی سب بچیوں کو زیادہ نمبر لینے چاہیے تھے۔ کیوں کہ اس اکیڈمی کی تمام طالبات یقینا اس طرح پردہ کرتی ہوں گی۔
مجھے افسوس اس بات پر بھی ہوا کہ ان لوگوں نے اس بحث میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا جن سے عموماً یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کے مائنڈ سیٹ اورشعورکو اپنے افکار و خیالات کے ذریعے عصرِحاضر کے تقاضوں کے عین مطابق درست کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس سلسلے میں، مَیں اپنا حالیہ ایک تجربہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔ جولائی میں ہم لیسٹر (یونائیٹڈ کنگڈم) کے ایک میڈیکل اسکول کے کنووکیشن میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ کارروائی شروع ہونے سے قبل ایک اعلان کیا گیا کہ ڈگری وصول کرنے والا/ والی اگر اپنے مذہبی عقیدے کی پاس داری کرتے ہوئے ڈگری دینے والے/ والی سے ہاتھ ملانا نہیں چاہتا/ چاہتی، تو ہر نشست پر ہم نے ایک کارڈ رکھا ہوا ہے، وہ اُس کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر سٹیج پر بغیر ہاتھ ملاتے ہوئے چلے جائیں، تاکہ ڈگری دینے والے کو طلبہ کے ارادوں کا پتا چل سکے۔
مَیں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ہاتھ ملانے اور نہ ملانے والوں کو سارے مہمان ایک جیسے تالیوں اور نعروں سے مساوی طور پر داد دیتے تھے۔ حالاں کہ ہال میں سب سے زیادہ انگریز، سکھ اور ہندو موجود تھے اور کسی نے ہاتھ نہ ملانے کے عمل کو برا کہا اور نہ اس بات کا کوئی نوٹس ہی لیا۔ وہ طلبہ کی کام یابی پر پُرجوش تھے۔
ہم لوگوں نے اس سے بھی بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ شوکت خان آف دیر پائیں جس نے پرائیویٹ حیثیت سے آرٹس گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی، کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ مجھے شوکت کی پرائیویٹ حیثیت میں امتحان دینے کی وجوہات کا علم نہیں، لیکن اکثر طلبہ و طالبات اپنی معاشی کم زوری، بیماری یا دوسری سماجی اور ثقافتی وجوہات کی بنا پر اسکول چھوڑ دیتے ہیں اور جن میں تعلیم کا شوق اور آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہو، وہ پرائیویٹ حیثیت میں امتحان دے کر آگے کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ چوں کہ سال 2021ء اور 2022ء کے پختون خوا حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق دیر لوئر اور دیر اَپر میں ڈراپ آؤٹ کی شرح بہت زیادہ ہے۔ توہمیں شوکت خان کی کام یابی کا سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ پزیرائی کرکے "Drop out” طلبہ کو واپس تعلیم کے دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ ہم نے یہ موقع بھی ضائع کیا۔ ہم اکثر بس مِس کرتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ ہم پیچھے رہ گئے۔ ہم اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو حالات کے مطابق استعمال نہیں کرتے اور بعد میں اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کم زوریوں کا رونا روتے ہیں۔
آخر میں موضوع کو سمیٹنے سے قبل برقع کے متعلق میں اپنے تاثرات اور تجربات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ پختون زمانۂ قدیم سے اس برقع کے ذریعے پردہ کرتے ہیں۔ اَب بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں یہ برقع بہت عام اور مقبول ہے۔
مَیں زرعی ترقیاتی بینک بٹ خیلہ میں موبائل کریڈٹ آفیسر (ایم سی او) کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ مجھے بٹ خیلہ، میزارہ اور الہ ڈھنڈ کا سرکل ملا تھا۔ مَیں نے بٹ خیلہ گاؤں میں اس برقع کا کثرت سے استعمال دیکھا تھا اور پھرمجھے یہ بھی پتا چلا کہ تقریباً تمام جوان اوربوڑھی عورتیں دونوں اس کو استعمال کرتی ہیں۔
بٹ خیلہ ضلع ملاکنڈ کا وہ بڑا قصبہ ہے جس کے لوگ علاقہ تھانہ کے بعد دوسرے نمبر پہ تعلیم یافتہ ہیں۔ خواتین کا ہر فیشن یہاں سے گزرتا ہے۔ کیوں کہ یہ ملاکنڈ ڈویژن کا گیٹ وے ہے اور یہ ضلع ملاکنڈ کا مرکز بھی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ یہ قطاً ایسی جگہ نہیں، جس کے لوگ نئے اور جدید فیشن سے نا آشنا ہوں لیکن وہ پھر بھی برقع یا پڑونے، فیشنی برقع کے طور پر اب بھی استعمال کرتے ہیں۔
تعلیم ایک ایسا زیور ہے جس سے انسان خوب صورت اور معاشرے کے لیے فائدہ مند بن جاتا ہے۔ تعلیم کے اس زیور کا ہمارے پختون معاشرے کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے تعلیم کے فروغ کے لیے جو بھی موقع ہاتھ آجائے، اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہمیں اپنی ثقافتی اقدار کی قدر بھی کرنی چاہیے۔ برقع در اصل ہمارے ہاں مذہبی اور سماجی اقدار کا آئینہ دار ہے۔ اسے ہماری دادیوں، ماؤں اور بہنوں نے ایک مذہبی حکم کے طور پر استعمال کیا ہے اور اب بھی کر رہی ہیں۔ ہمیں اس کو اپنے مخصوص نظریے یا سیاست کی خاطر بدنام نہیں کرنا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔