چند دن قبل گاؤں سے مہمان آئے تھے۔ پختونخوا سے بلوچستان تک کوئی آئے، تو ہم خوش ہوجاتے ہیں۔ پردیس میں کسی رشتے دار یا علاقے دار کا ملنا عجیب سی خوشی کا ساماں فراہم کرتا ہے۔
آئے ہوئے مہمانوں سے حالاتِ حاضرہ پر بات چیت ہوئی، تو اُن میں شامل ایک سرکاری ملازم نے کہا: ’’باقی تو مجھے علم نہیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ جب رات کے وقت ہم جنوبی اضلاع کو کراس کررہے تھے، تو ایک جگہ پر گاڑی والے نے کہا کہ اگر کسی کے پاس سرکاری ملازمت کا کارڈ ہے، تو ہمیں دے دیں، یا خود کہیں چھپا کر رکھ دیں۔‘‘
مہمان نے مزید کہا کہ جب مَیں نے گاڑی والے سے اِس کا سبب دریافت کیا، تو اُس نے پشتو کی ایک کہاوت کا سہارا لیا، جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے: ’’بجلی کی تاروں اور سرکار کے کاموں کو نہیں چھیڑنا چاہیے۔‘‘
یہ بات ہوچکی، تو پھر مَیں نے جنوبی اضلاع کے کچھ دوستوں سے معلوم کیا۔ بعد میں بنوں کا بدقسمت واقعہ بھی وقوع پذیر ہوا ،تو پتا چلا کہ سرکاری ملازمین کی حفاظت کے لیے اُن کو رات کے وقت سفر سے منع کیا جاتاہے۔
قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل انھی علاقوں میں ایک جج صاحب کو اِغوا کیا گیا تھا۔ اُس وقت پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ایک اَن جان سے خوف کا ماحول بن گیا ہے۔ ڈیرہ اوربنوں میں فوجی جوانوں کو شہید کیا گیا۔ ایسے حالات بن چکے ہیں کہ اب ان علاقوں میں سفر کرنے سے قبل ہزار بار سوچنا پڑتا ہے ۔ دنیامگر مجبوری سے بھری پڑی ہے۔ سوچ سے بھوک ختم نہیں ہوتی۔ تلاشِ رزق میں ہر دریا اور صحرا کو پار کرنا پڑتا ہے۔ اب بیچ راستے میں کچھ بھی پیش آئے اپنی اپنی قسمت کی بات ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ تاثر جو بنتا جارہا ہے کہ بدامنی کا راج ہے، یہ تاثر سماجی اور معاشی استحکام کے لیے سوہانِ روح ہے۔
یہ باتیں اب پرانی ہوگئیں کہ حکومت کی فُلاں پالیسی ناکام تھی اور ریاست کی فُلاں ترجیح درست نہیں تھی۔ وہ تو جو ہونا تھا، ہوچکا۔ جنگ اپنی تھی یا پرائی تھی…… خون تو ہمارا ہی بہا۔ 70 ہزار سے زائد مرنے والے (فوجی اور عوام) ہمارے ہی لوگ تھے۔ اسی پاکستان کے باسی تھے۔ کسی کے بیٹے تھے، تو کسی کے باپ یا بھائی۔ ملکی سرحد پر جان قربان کرنے والا فوجی جوان اور کسی نامعلوم گولی کا شکار ہونے والے عام شہری دونوں کا خون لال ہے۔ دونوں اسی ملک کے شہری ہیں۔ بدامنی دونوں کے فائدے میں نہیں۔
دراصل کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پرانی غلطیوں کو یاد کرنے سے موجودہ مسائل حل نہیں ہوں گے، بل کہ ابھی سے مزید غلطیوں سے اجتناب کرنا پڑے گا۔ سلامتی کے معاملات میں تجربات سے گریز کرنا ہوگا۔ یہ مناسب نہیں کہ آج ایک پالیسی تو کل دوسری پالیسی…… اور آج کی غلطی کو کل درست کرنے کے لیے کل ایک اور غلطی کا ارتکاب کیا جائے۔ خلقِ خدا موجودہ حالات میں تشویش میں ہے اور اگر بروقت مدوا نہیں کیا گیا، تو اندیشوں میں اضافہ ہوگا، جو مایوسی کوجنم دے گا…… اور مایوسی میں مذاکرات کا دروازہ بند کیا جاتا ہے۔ پھر جب مذاکرات نہ ہوں، تو مفاہمت کیسے ممکن ہے؟
المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ بڑے لوگ یا ادارے اپنا چشمہ بدلتے نہیں اور کچھ اور لوگ ہیں، جن کے ہاں ہر برائی کے لیے کوئی اور ذمے دار ہے، وہ خود نہیں۔
اگرچہ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ماسوائے اتحاد، اتفاق اور یک سوئی کے سوا کوئی راستہ بچا نہیں۔ ہر طرف سے نیزے تیز ہورہے ہیں، جو کہ ظلم ہے۔ اس ظلم نے ہر طرف انفرادیت کو ترجیح دی ہوئی ہے اور ہر ایک سمجھتا ہے کہ اگر میں بچا ہوا ہوں، تو یہ اصل کام یابی ہے۔ باقی لوگ جانیں اور ان کا انجام…… لیکن قرآنی فلسفہ اس سے الگ ہے۔ کیوں کہ سورۂ انفال کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ اُس فتنے یا عذاب سے ڈرو جو صرف ظالموں کے لیے خاص نہیں۔
یعنی جب کہیں سونامی یا زلزلہ آتا ہے، تو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم……؟
سیلاب آتا ہے، تو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ اَمن دشمنوں کو مسترد کیاجائے اور اس ملک میں حقیقی امن قائم کیا جائے۔ کیوں کہ یہ ملک ہے، تو سب کچھ ہے، ورنہ کچھ بھی نہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔