تاریخ سے نابلد اقوام کو اپنی پہچان ہوتی ہے نہ دنیا کی۔ ایسی قوم کے نصیب میں قیادت نہیں، تقلید ہوتی ہے…… اور تقلید بھی مکمل اندھی ہوتی ہے۔ تاریخ بھی ایسی قوموں پر خاموش رہتی ہے، جو تاریخ کو نظر انداز کرتی ہیں۔
مینگورہ شہر میں ایک مزار ہے ملا بابا کے نام سے۔ موجودہ نسل کو شاید شکستہ قبرستان کے علاوہ یہاں کچھ دکھائی نہ دے، مگر پچھلی نسل کے لوگ نہ ٹوٹنے والے بخار کو توڑنے کے لیے ملا بابا کے مزار پر جاتے، نوافل پڑھتے، پڑا ہوا نمک چکتے اور کچھ دیر آرام کرتے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سخت پسینے آتے اور بخار ختم ہوجاتا۔ اس طرح کند ذہن اور نالائق بچے لائے جاتے۔ احتراماً قبر مبارک کے اردگرد جھاڑو لگوائی جاتی، نمک چکوائی جاتی۔ یہ عمل ہر جمعرات کی شام دُہرایا جاتا۔ نتیجتاً ایسے بچے خوش گفتار، سلیقہ مند اور ہونہار بن جاتے۔
نئی نسل کے لیے میری یہ باتیں مضحکہ خیز ہوسکتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ان کے لیے ملابابا روڑ یا ملابابا کا علاقہ شاید زیادہ شناسا ہو۔ ’’جیپل‘‘ جو ملابابا کے مقبرے کا خادم تھا، بیش تر لوگوں کو یاد ہی نہ ہو…… مگر سب سے پہلے اس گتھی کو سلجھاتے ہیں کہ یہ ملابابا تھے کون؟
برٹش میوزیم لائبریری لندن میں ایک شاعر اکبر کی کتب اور شاعری سوات اور یوسف زئی روایات کے ساتھ رہن سہن کو بیان کرتی ہے۔ شاعر کی سوات سے محبت، کوکاری، مینگورہ، جامبل سمیت سوات کے مختلف علاقوں کے ذکر اور اخلاقیات اور تصوف پر گران قدر اشعار ملتے ہیں۔
اتنا ہی نہیں محمد اکبر خان اپنا شجرہ تک اشعار میں بیان کرتے ہیں۔ شیخ طاؤس خان مدفن کلپانٹری قدیم مردان (موجودہ مردان انگریزوں نے اپنے افواج کے لیے آباد کیا۔)
محمد اکبر خان کا یوسف زئی قبیلے کی ذیلی شاخ یوسف زئی سے تعلق بیان کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ محمد اکبر قبائلی پختو دور کی لڑائیوں اور جنگ و جدل کے خلاف تھے۔ اُن کا رُجحان جو اُنھیں ورثے میں ملا تھا، علم، تصوف اور طب کی طرف تھا۔ وہ معاشرے میں برداشت، برابری اور محبت کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ علم کے بغیر انسان کی تکمیل سے انکار کرتے تھے اور ایسے انسان کو اندھیروں کا مسافر کہتے تھے ۔ افسوس کہ سوات کے لوگوں نے ملابابا کے مزار کو محض ایک قبر سمجھ کر اُن کی بزرگی کو نظر انداز کیا۔
والی صاحب نشاط چوک سے مکان باغ اور مکان باغ چوک سے سہراب خان چوک تک ایک ’’وی‘‘ (V) نما سڑک بنانا چاہتے تھے۔ سڑک ملابابا کے مزار کے عین اوپر آرہی تھی۔ علما نے دبے الفاظ میں اُنھیں منع کیا، مگر روشن خیال والی صاحب دھن کے پکے تھے۔ والی صاحب کا روڈ ایکسیڈینٹ ہوا۔ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے بھاری خواب دیکھا اور سب سے پہلا کام اس کے رد عمل میں سڑک کے نقشے کی تنسیخ تھا۔ مکان باغ چوک سے گلشن چوک تک سڑک کی منظوری دی۔ ساتھ ہی ملابابا روڑ کو سہراب خان چوک سیدو روڈ، لنک روڈ بنایا۔ مقبرے کی تعمیر کی اور پورے قبرستان کی صفائی کروائی۔ یوں محمد اکبر خان، مولا بابا (ملا بابا) بن گئے۔
برٹش میوزیم لائبریری میں موجود اُن کا کلام پشتو زبان کے ہر آنے والے کو سوات اور یوسف زئی سوات کی بے پروائی یاد دلاتا ہے۔
پختو اکیڈمی نے کچھ تحقیق کی مولا بابا (ملا بابا) کی قبر پر۔ محمد اکبر خان بابا کے بورڈ نصب کیے، مگر وقت کے ظالم پردوں نے سب کچھ چھپا دیا۔
اس کے بعد جیپل نے وقف شدہ شکستہ گھر کو کمرشل نرخوں پر بیچ دیا۔ بنیے شہر نے اس پر پلازے بناکر اپنے علم دوستی کا ثبوت دیا۔جہاں ایک وسیع لائبریری ہونی چاہیے تھی، وہاں آج دودھ دہی اور گوشت بکتا ہے۔
محمد اکبر خان کی اولاد نے سوات میں علم اور طب کو آگے بڑھایا۔ بادشاہ صاحب کی حکومت قائم ہوئی، تو انصاف کا نظام مرتب کیا۔ ڈاک قاضی صاحب یا مینگورہ قاضی صاحب (محمد اکبر خان کا صاحب زادہ) دراصل وہ طاقت تھی، جس نے باچا صاحب کی حکومت کو دوام بخشا اور انصاف کا نظام قائم کیا۔
ڈاک قاضی صاحب کے بھائی کو طب میں کمال حاصل تھا۔ شاہی اور عوامی حکیم ہونے کے ساتھ حکیم الریاست اور استاد الحکما تھے۔ علم کے حصول کے لیے پورے ہندوستان کا سفر کیا۔ جمعے کے روز کے خطبے پشتو زبان میں تحریر کیے۔ ریاست یوسف زئی سوات کی تعمیر اور استحکام میں مستقل اور دیرپا کردار ادا کیا۔
میرا خیال ہے کہ یونیورسٹی آف سوات سمیت پشتو دان ہر مفکر، تحقیق کنندہ اور دانش ور پر فرض ہے کہ محمد اکبر خان کے علمی، تاریخی اور مذہبی کردار پر تحقیق کرے۔ سیاسی اور سماجی شخصیات پر لازم ہے کہ ایسے عظیم لوگوں کے ورثے کی حفاظت کریں اور اُن کو شایانِ شان مقام دیں۔
اس ضمن میں تحصیلِ بابوزی ٹی ایم اے سے درخواست ہے کہ بابا کی قبر مبارک کے احترام کی خاطر صحیح پلاننگ کی جائے۔ اس کے آس پاس تجاوزات کو ختم کیا جائے۔ جہانزیب کالج اور پشاور پختو ڈیپارٹمنٹ فوری طور پر اس معلوم تاریخ کی تصدیق کریں اور نئ نسل کے لیے تحریر کرکے نصب کریں۔
گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 4 ملابابا مینگورہ، ملابابا قبرستان ہی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ جن دنوں ہم پڑھ رہے تھے، تو اس دور میں بھی سکول کے احاطے میں کچی پکی قبریں تھیں۔ اَب معلوم نہیں، کیا صورتِ حال ہے؟
جہاں سے لوگ فیض لیتے تھے، اُس مزار پر ایک وقت ایسا آیا کہ اُس کو قبضہ مافیا، لینڈ مافیا اور منشیات فروشوں سے خطرات لاحق ہوئے۔ باقی ماندہ مقبرے کے گرد فصیل کھڑی کی گئی۔ فیض کیا ملنا، کہیں کسی دن باقی ماندہ مقبرے پر بھی ایک فلک بوس پلازہ تعمیر نہ کیا جائے، خاکم بدہن!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔