رباب: ثقافتی ورثے کی علامت یا ممنوعہ شے؟

Blogger Mian Ghufran Ullah Tajak

قارئین! آج کی نشست میں ملاکنڈ یونیورسٹی کے واقعے اور اس کے اثرات کے بارے میں بات کریں گے۔
ملاکنڈ یونیورسٹی میں حالیہ پیش آنے والا واقعہ جہاں ایک طالب علم کو رباب لانے پر مبینہ طور پر تنبیہ دی گئی اور بعد میں ایک حادثے میں اس کی جان چلی گئی، نے پورے معاشرے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک نوجوان کی زندگی کے خاتمے کا سبب بنا، بل کہ اس نے ہمارے تعلیمی اداروں میں ثقافتی تنوع اور ہم آہنگی کے فقدان کو بھی بے نقاب کیا ہے۔
٭ واقعے کا پس منظر:۔
ملاکنڈ یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو رباب لانے پر انتظامیہ نے مبینہ طور پر تنبیہ دی، جو پشتو کلچر اور موسیقی کا ایک اہم حصہ ہے۔ طالب علم کے ساتھ اس سلوک نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کردیا، اور لوگوں نے علامتی طور پر رباب کی تصاویر ’’اَپ لوڈ‘‘ کرکے ہم دردی اور احتجاج کا اظہار کیا۔
٭ ثقافتی تنوع اور ہم آہنگی کی اہمیت:۔
یہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے ثقافتی تنوع کو اپنانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ رباب جیسے ثقافتی ورثے کی اشیا پر پابندی عائد کرنا نہ صرف طالب علموں کی آزادی کو محدود کرتا ہے، بل کہ ثقافتی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ تعلیمی ادارے وہ جگہیں ہیں، جہاں مختلف ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ان کی قدر کو بڑھانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
٭ پالیسی سازوں کی ذمے داری:۔
یونیورسٹیوں کے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ داخلہ فارم کے وقت ہی ہر چیز کو وضاحت سے بیان کریں اور ایک فہرست فراہم کریں کہ کن سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ اس طرح کے واضح قواعد و ضوابط سے طالب علموں کو پہلے ہی آگاہی مل جائے گی اور وہ یونیورسٹی کے اُصولوں کے مطابق اپنے رویے کو ڈھال سکیں گے۔
یونیورسٹی کا ضابطۂ اخلاق یقینی طور پر نافذ العمل ہونا چاہیے، مگر اس کا نفاذ اس طریقے سے ہونا چاہیے کہ وہ طالب علموں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو متاثر نہ کرے۔ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے وقت اُصولوں اور قواعد کی روشنی میں مناسب اقدام کیے جائیں، تاکہ کسی کو نقصان نہ پہنچے۔
٭ احساسات کا احترام:۔
کسی بھی تعلیمی ادارے کو اپنے طالب علموں کے احساسات کا احترام کرنا چاہیے اور ایسی سرگرمیوں سے دور رہنا چاہیے، جو معاشرتی فساد کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی ثقافتی ورثے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں۔
٭ شفاف تحقیقات کی ضرورت:۔
اس معاملے کی مکمل شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں، تاکہ کسی کی غفلت یا کوتاہی کسی بے گناہ پر نہ ڈالی جائے اور کسی کو ناکردہ جرم میں ذہنی نقصان نہ پہنچے۔ قرآن مجید کا واضح پیغام ہے:
’’اے ایمان والو……! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے، تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمھیں اپنے کیے پر پشیمان ہونا پڑے۔‘‘(سورۂ الحجرات)
اس نصیحت کی روشنی میں ہر قسم کی معلومات کی تصدیق ضروری ہے، تاکہ کسی کو بلاوجہ نقصان نہ پہنچے ۔
قارئین! یہ واقعہ اگر ہوا ہے، تو ایک بڑی تنبیہ ہے کہ ہمیں ثقافتی ہم آہنگی اور تنوع کو تسلیم کرنے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اُصول و ضوابط کو واضح کریں اور طالب علموں کو ان کے ثقافتی پس منظر کے حوالے سے احترام دیں۔ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی سوچ اور رویے میں تبدیلی لانا ہوگی، تاکہ ہر فرد اپنی مرضی اور قانونی زندگی جی سکے۔
ملاکنڈ یونیورسٹی کا یہ واقعہ ہمارے تعلیمی نظام کی خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہمیں ایک ایسے تعلیمی ماحول کی تشکیل کی ضرورت ہے، جہاں ہر طالب علم اپنے ثقافتی ورثے کے ساتھ فخر سے جی سکے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے آزاد ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ شفاف تحقیقات کے ذریعے سچائی کو سامنے لانا اور انصاف کی فراہمی یقینی بنانا بھی نہایت ضروری ہے۔
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے