کئی دفعہ اساتذہ نے ہماری اس بات پر باقاعدہ گوش مالی کی ہے کہ تحریر میں ’’مشکور‘‘ بہ معنیِ ’’ممنون‘‘ صحیح نہیں۔ اس کی جگہ ’’شاکر‘‘ لکھنا اور کہنا چاہیے۔ ایک استادِ محترم ’’مشکور‘‘ کی جگہ ’’متشکر‘‘ لکھنے کی سختی سے تاکید کرتے ہیں۔
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
یعنی دل کو جو تسلی ’’مشکور‘‘ لکھنے یا کہنے سے ملتی ہے، وہ ’’شاکر‘‘ یا ’’متشکر‘‘ لکھنے یا کہنے سے کہاں ملتی ہے۔
الفاظ جن کا املا غلط لکھا جاتا ہے، ملاحظہ ہوں نیچے دیے جانے والے لنک میں:
https://lafzuna.com/category/today-word/
آئیے، چند پرانے ادبی اوراق سے گرد اُڑاتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دراصل اس مسئلے نے سر کہاں سے اُٹھایا؟
اُردو املا پر سند کی حیثیت رکھنے والے رشید حسن خان نے اپنی تحقیقی کتاب ’’زبان اور قواعد‘‘ (مطبوعہ ’’زبیر بکس، لاہور‘‘ سنِ اشاعت درج نہیں) کے صفحہ نمبر 55 پر مولفینِ قاموس کا حوالہ دیتے ہوئے درج کیا ہے: ’’مشکور بہ معنیِ ممنون صحیح نہیں۔‘‘ اور اس پر اظہارِ تعجب کیا ہے کہ ’’ایک واقف کار شخص بھی لکھ گیا ہے۔‘‘
رشید حسن خان مذکورہ صفحہ پر رقم طراز ہیں کہ ’’واقف کار شخص سے مراد غالباً مولانا شبلی نعمانی ہیں؛ اُن کا شعر ہے:
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ درگوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں‘‘
رشید حسن خان نے آگے فرہنگِ آصفیہ اور نور اللغات کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مولفینِ آصفیہ و نور بھی اس لفظ سے کچھ خوش نہیں۔‘‘
’’اگر ممنون و مشکور کی بجائے، ممنون و شاکر کہیں تو بجا ہے۔‘‘ (آصفیہ)
’’اہلِ علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ مشکور، صفت اُس شخص کی ہوگی جس نے احسان کیا ہے، نہ اُس شخص کی جس پر احسان کیا گیا ہے۔‘‘ (نور)
اس تفصیل کے بعد رشید حسن خان لکھتے ہیں: ’’عربی قواعد کے لحاظ سے لغت نویسوں کا فیصلہ بالکل صحیح ہے، لیکن ایک دوسری زبان اُن قواعد کی پائے بند کیوں ہو! مشکور، بہ معنی شکر گزار، آج بھی برابر استعمال ہوتا ہے اور پہلے بھی بے تکلف استعمال کیا گیا ہے۔ مولفِ نور نے لکھا ہے کہ اہلِ علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے؛ ’اہلِ علم‘ ہی میں سے ایک ممتاز فرد کا یہ قول ہے: ’عربی میں ’مشکور‘ اُس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اُس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے؛ اِسی لیے بعض عربی کی قابلیت جتانے والے، اِس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ ’شاکر‘ یا ’متشکر‘ بولنا چاہتے ہیں، مگر اُن کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنا چاہیے۔‘‘ (مولانا سید سلیمان ندوی، نقوشِ سلیمانی صفحہ نمبر 98)
آگے رشید حسن خان پنڈت دتاتریہ کیفیؔ کی دلیل حوالتاً یوں درج کرتے ہیں: ’’جب ’عادی‘ اور ’مشکور‘ مدتوں سے ’عادت گیرندہ‘ اور ’احسان مند‘ کے معنی میں استعمال ہو رہے ہیں اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن انھی معنی کی طرف جاتا ہے، تو اب قاموس اور صراح سے فتوا لے کر، اِن الفاظ کو اُردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟‘‘ (منشورات، صفحہ نمبر 164)
’’زبان اور قواعد‘‘ کے صفحہ نمبر 56 پر رشید حسن خان ایک اچھی خاصی فہرست ان الفاظ کے ساتھ پیش کرتے ہیں: ’’اتمامِ حجت کے طور پر دو چار مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں:
رنگ رنگ اطعمہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
میرؔ (کلیات مرتبۂ آسیؔ، صفحہ نمبر 737)
’’جو کچھ ہوسکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو۔‘‘ (مکاتیبِ امیر مینائی، مرتبۂ احسن اللہ خاں ثاقبؔ، طبعِ دوم، صفحہ نمبر 170)
’’ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں۔‘‘ سر سیّد (مکاتیبِ سرسیّد، مرتبۂ مشتاق حسین، صفحہ نمبر 274)
’’آپ کا خط پہنچا، مَیں مشکور و ممنون ہوا۔‘‘ سید حسن بلگرامی (تاریخِ نثرِ اُردو، صفحہ نمبر 598)
’’خادم آپ کی عنایتِ بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا۔‘‘ ابوالکلام آزاد (مرقّعِ ادب، صفحہ نمبر 45)
اس طرح ایک مستند حوالہ ’’فرہنگِ تلفظ‘‘ (مرتبۂ شان الحق حقی) میں بھی ہاتھ آتا ہے، ملاحظہ ہو: ’’مَشکُور: عام طور پر شکر گزار، شاکر، متشکر، ممنون احسان مند کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔