’’مضافات‘‘…… یعنی کسی ملک یا علاقے کے جغرافیائی حاشیے پر رہنے والوں کے اپنے عذاب ہوتے ہیں۔ ان کو اگر ایک طرف کئی طرح سے مرکز نظرانداز کرتا ہے، تو دوسری طرف مرکز ان کے وسائل کو استعمال کرکے ان مضافاتی لوگوں کو ان کا حق بھی نہیں دیتا۔ ان لوگوں کے بارے میں مرکز کئی طرح کاثقافتی، سیاسی اور معاشی تعصب رکھتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
پیارا ملک پاکستان چوں کہ ایک نوآبادیاتی سلطنت کی کوکھ سے جنم لے چکا ہے۔ اس لیے اس ملک میں اس نوآبادیت کا اندرونی تصور، رویہ اور عمل جاری و ساری ہے۔ آئیے، مرکز اور مضافات کے اس ثقافتی، معاشی، سیاسی اور ترقیاتی تعصب کو چند مثالوں سے واضح کیے دیتے ہیں۔
٭ مرکز کے لوگ مضافاتی لوگوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ لوگ اَن پڑھ، غیر مہذب، سخت گیر اور وحشی قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں کوئی اعلا تعلیم یافتہ ان کی اپنی برائی کی وجہ سے نہیں اُٹھ سکتا اور نہ کوئی شخص کوئی علمی و فکری کام ان کی اپنی خامی کی وجہ ہی سے کرسکتا ہے۔
٭ مرکز سمجھتا ہے کہ یہ مضافاتی لوگ دقیانوسی ثقافت سے جڑے ہوتے ہیں۔ اب تو پاکستانی مرکز ملک میں دہشت گرد انھی مضافاتی لوگوں کو سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکورٹی چیک پوسٹیں زیادہ تر ان علاقوں میں ہوں گی۔ مرکزی پاکستان میں آپ کو یہ عذاب جھیلنا نہیں پڑے گا۔
٭ پاکستانی مرکز سمجھتا ہے کہ زبان و اَدب پر صرف اس کی اجارہ داری ہے، جب کہ یہ مضافاتی لوگ بعض کم تر زبانیں جن کو وہ لہجے کہتا ہے، بولتے ہیں…… اور ان کے ہاں ادب و ثقافت کاکوئی رواج نہیں۔
٭ ترقیاتی لحاظ سے دیکھا جائے، تو یہی اِک آدھ مثال کافی ہے کہ اسلام آباد اور لاہور کی سڑک مہینوں میں بن جاتی ہے جب کہ یہاں سوات کی سڑک پر سالوں لگ جاتے ہیں۔
٭ پاکستان کے مضافات کے پاس قدرتی وسائل ہیں، مگر ان وسائل کو مرکز ہڑپ کرجاتا ہے اور بدلے میں ان مضافات کو کچھ نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر مضافات جنگلات اور پانی کے ذخائر سے اَٹے پڑے ہیں۔ تاہم ان جنگلات کی کٹائی اور اس ٹمبر کی فروخت میں مرکز پیش پیش رہتا ہے۔ ان وسائل کے استعمال کے بارے میں مرکز ہی پالیسیاں بناتا ہے، جو کہ ان مرکزی مگر مچھوں کی بھلائی کے لیے ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان کو پاکستان کا ’’واٹر ٹاور‘‘ یعنی پانی کا بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کی زمینیں اس پانی سے آباد ہیں۔ بھاشا دیامر، داسو اور تربیلہ اس پانی سے آباد ہیں، مگر گلگت بلتستان میں سردیوں کو بجلی 24 گھنٹوں میں صرف 2گھنٹوں کے لیے ہوتی ہے۔ آیا بھاشا اور داسو ڈیموں سے ان علاقوں کو سستی بجلی دی جائے گی؟ معلوم نہیں…… بلکہ معلوم کیا، ایسا کوئی نہیں کرے گا۔
٭ سوات اور چترال میں پن بجلی منصوبے بنائے جارہے ہیں اور یہاں کے دریاؤں کو تباہ کیا جارہا ہے، مگر کہیں کوئی پالیسی نہیں کہ ان منصوبوں سے ان علاقوں کو کیا فائدہ ملے گا؟ ان علاقوں کو سیاحت کے نام پر ایک مبہم اور غیر یقینی معیشت کا جھانسا دیا جارہا ہے، لیکن یہاں کے سیاحتی مقامات کی زمینوں کی خرید و فروخت کے لیے سرمایہ کاروں (Investors) کے خوش نما ناموں سے مرکز کے لوگوں کو ترغیب دی جارہی ہے، تاکہ وہ یہاں کی زمینیں ہڑپ کرسکیں۔ مقامی سرمایہ کار کی راہ میں مقامی انتظامیہ سے لے کر مرکز کے پالیسی ساز مشکلات کھڑے کر دیتے ہیں اور ان سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے، گویا وہ تیسرے درجے کے شہری ہوں۔ مثال کے طور پر بحرین بازار ہی کو لے لیں۔ یہاں چوں کہ کوئی مرکزی سرمایہ کار نہیں تھا، لہٰذا لوگوں کے ہوٹلوں کو دو سال بند رکھا گیا اور اب جاکر ایک سڑک ایسی بنائی جارہی ہے کہ اس سے پورے ہوٹل تباہ کیے جارہے ہیں۔ کیا یہ سڑک اگست 2022ء کے فوراً بعد نہیں بن سکتی تھی؟
٭ ان مضافات کے اسپتال ہوں کہ سکول، پہلے تو ہوتے نہیں…… اور اگر ہوں، تو بھی ناقص۔ اگر ان اداروں میں کوئی کمی آجائے، تو اس کو کبھی دور نہیں کیا جاتا۔ اسپتالوں کی مشینری اگر خراب ہوجائے، تو نئی مشینری کو فراہم نہیں کیا جاتا۔ سکولوں کی تعداد گھٹائی جاتی ہے۔ کوہستان کے علاقے میں 40 سکول بند کردیے گئے۔ کسی اور سکول کا اضافہ نہ ہوا۔ ان مضافات میں جو سکول قدرتی آفات کے شکار ہوگئے ہیں، ان کو ابھی تک آباد نہیں کیا گیا۔ اسپتال کی عمارات اچھی بنائی گئیں، تاہم ان میں سہولیات کتنے اور کیسے ہیں…… اس کے بارے میں ہنوز خاموشی ہے۔ درال پن بجلی منصوبے میں ترقی کے جو وعدے کیے گئے تھے، اُن کا کیا بنا؟ کوئی نہیں بتارہا۔ البتہ اس پاؤر ہاؤس کی دیواروں کو اونچا کرنے پر اربوں خرچ کیے جاتے ہیں، تاکہ عوام کو نظر نہ آئے۔ کیوں کہ ان مضافات کے عوام کو سیکورٹی رسک سمجھا جاتا ہے۔
٭ ان مضافات میں اگر کوئی مزاحمتی آواز اُٹھتی ہے، تو اس کو فرقہ واریت، ملائیت اور نسل پرستی بڑھانے سے دبایا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں مختلف فرقوں کو لڑایا جاتا ہے، جب کہ یہاں سوات، چترال اور دیر میں کسی پڑوسی ملک میں اپنی ناکامی کے ملبے کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے ان علاقوں میں فسادات شروع ہوجاتے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ مرکز اس ناکارہ ملبے کو اپنے پاس کیوں نہیں رکھتا؟بحرین میں درال پن بجلی منصوبے کی موجودہ شکل کے خلاف مزاحمت ہوئی، تو یہاں ایک ہی برادری کے اندر نسل پرستی کو ہوا دی گئی اور اس کو استعمال کرکے اپنا کام نکالا گیا۔ اب سب سر پیٹ رہے ہیں، مگر وقت تھا…… نکل گیا!
٭ ان مضافات میں اٹھتی آوازوں کو ملک دشمن، مذہب بے زار، لبرل یا دہشت گرد قرار دے کر اپنے ہی لوگوں کے ہاں بڑی چالاکی سے بدنام کیا جاتا ہے۔ ہنزہ کے بابا جان کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے، مگر مرکز احسان اللہ احسان کو مہمان بناکر پھر کسی اور ملک بھیجا دیتا ہے۔
٭ اگر ان مضافات سے کوئی ایسے سوالات اٹھائے، تو اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ اس کا نان نفقہ بند کیا جاتا ہے، تاکہ خوف کا بازار گرم رہے۔ کئی لوگوں کو چھٹیاں بھیج کر اور فون کرکے اپنے پروگرام سے نتھی کیا جاتا ہے اور وہ اس کام کو مقدس کام سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ایسے میں ان مضافات سے لوگ الیکشن کے لیے پر تول رہے ہیں اور عوام کے سامنے مختلف دعوے کر رہے ہیں۔ ایسے رہنماؤں پر غصہ آتا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پہلے کیا کیا کہ اب کریں گے؟ کوئی ان سے پوچھے کہ ان گہرے مسائل کا کتنا ادراک رکھتے ہیں!
ایسے رہنماؤں کو یہی کہا جاسکتا کہ بس کسی طریقے سے الیکشن جیت کر کسی مرکز میں مرکزی لوگوں کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر سیلفیوں پر اکتفا کیا جائے! جہاں پورا پارلیمان کوئی اور چلائے، وہاں کیا تبدیلی اور کیا ترقی……!
جہاں کوئی پارلیمان اشراف کے لیے گھنٹو ں میں سیکڑوں بل پاس کرے، وہاں کیا سیاست اور کہا جمہوریت……!
جہاں سیاست صرف ایک دوسرے کو گالی دینے کا نام ہو وہاں کیا انقلاب اور تبدیلی……!
قارئین، میرے اس مضمون کو میری بے بسی کی چیخ سمجھیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔