موجودہ حالات میں کسی کو عوام اور پاکستان کی فکر دامن گیر نہیں۔ ہر کوئی لیلائے اقتدار کا غلام بنا ہوا ہے۔ ذاتی مفادات ملکی مفادات پر مقدم ہو جائیں، تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کسی کو سبق سکھانے کی خاطر ادارے باہمی گٹھ جوڑ سے جس پہلوان کو تیار کرتے ہیں، ایک دن وہی اُن کے گلے پڑ جاتا ہے۔ پہلوان کتنی دیر تک اپنی گردن پیش کرتا رہے گا؟ لہٰذا ایک دن تنگ آ کر وہ سر کشی پر اُتر آتا ہے اور پھر اُس کا جو حشر کیا جاتا ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔فرشتہ صفت انسان، شیطان کا روپ دھار لیتا ہے اور پھر میڈیا ٹرائل سے اس کا مردہ رول دیا جاتا ہے۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
یہ کہانی کسی ایک فرد کی نہیں، بلکہ ایک سوچ کی کہانی ہے۔ طاقت کی کہانی، اندھی قوت کی کہانی، برتری کی کہانی، اَنانیت کی کہانی، سپر میسی کی کہانی اور عقلِ کل کی کہانی۔ مان جائیں، سر نگوں ہوجائیں، سرِ تسلیم خم کر دیں، توراوی چین ہی چین لکھتا ہے…… لیکن سر تابی کی صورت میں سزا کی مہر ثبت ہو جاتی ہے۔
ستمبر 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو مجبور کیا گیا کہ وہ اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کریں، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایسا حکم ماننے سے صاف انکار کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اسمبلی کے فلور پر اپنی جا ن تو دے سکتی ہیں، لیکن اسمبی تحلیل نہیں کرسکتیں۔ عوام کے جمہوری حق پر شمشیر زنی کی آئین اُنھیں اجازت نہیں دیتا۔ اسمبلی تحلیل نہ ہوئی، لیکن حکم عدولی کی وجہ سے اُنھیں ایک بہت بڑے سانحہ سے گزرنا پڑا۔ ہر کوئی محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح جرات مند، با ہمت اور وسیع القلب نہیں ہوتا کہ سب کچھ سہنے کے باوجود پُرامن سیاسی جد و جہد کے لیے سینہ سپر ہوجائے۔ عدلیہ کی ناانصافیوں اور مقتدرہ کی یک طرفہ کارروائیوں کے باوجودمحترمہ بے نظیر بھٹو کا لہجہ کبھی تلخ نہیں ہواتھا۔ شاید ان کی خاندانی تربیت نے انھیں اپنی حدوں سے تجاوز کرنے سے روکاتھا، یا ان کے اندر پُرامن جد و جہد کا جو جنون تھا، وہ اُسے ایسا کرنے میں مانع تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے سب کچھ برداشت کیا، لیکن پُرامن سیاسی جد و جہد کو ترک نہیں کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جا تا ہے اور انھیں ایک ایسے استعارے کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے، جس کی منشا عوامی راج کی خاطر سب کچھ نچھاور کردینا تھا۔ چلچلاتی دھوپ میں ننھے منھے بچوں کی انگلی تھامے جیل کے آہنی گیٹ کے باہر اپنے خاوند سے ملنے کی خاطر گھنٹوں انتظار کرنے کے باوجود بھی بی بی کا پارہ نہیں چڑھتا تھا۔ بی بی نے دنیا کو بتا دیا کہ عورت کی برداشت، ہمت، جرات اور صبر مرد سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتا۔ وہ کام جو پٹرول بموں، بندوق کی گولیوں اور آتشیں اسلحہ سے سر انجام پاتا تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو نے وہ کام جیل کے گیٹ کے باہر انتظار کی کوفت کو سہہ کر سرانجام دے دیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سیاسی سہ روزوں اور چلّہ کشی کا دور
ڈراما نیا مگر سکرپٹ پرانا ہے
انتخانی اصلاحات وقت کا تقاضا
پُرامن جد و جہد قربانی مانگتی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹونے وہ قربانی پیش کی۔ یہ ایک غیر معمولی اظہاریہ ہوتا ہے جو ہر انسان کی بساط میں نہیں ہوتا۔ جیل کے گیٹ کے باہر ایک پتھر پر بیٹھ کر بی بی نے پُرامن جد و جہد کی جو تاریخ رقم کی، وہ قابلِ فخر ہے۔ نازوں میں پلی ہوئی ذوالقار علی بھٹو کی لاڈلی بیٹی نے پُرامن جد و جہد سے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ اس نے حکم رانوں کے ناروا سلوک پر نہ کوئی شور کیا، نہ کوئی دہائی دی ،نہ کوئی احتجاج کیااور نہ اپنے ریاستی عہدے کا واسطہ ہی دیا۔ ایک سابق وزیرِ اعظم ہونے کے استحقا ق کا بھی رونا نہیں رویا، بلکہ مخالفین کے ہر وار کوخند ہ پیشانی سے جھیلا۔ اُن کی یہی خندہ پیشانی اُن کی فتح کا دیباچہ بنی۔
مورخ انگشتِ بہ دنداں ہیں کہ بھٹو خاندان کی بہادر سپتری کے اندر برداشت اور صبر کا یہ عظیم الشان ملکہ کہاں سے آیا؟ کس نے اُنھیں جمہوری جنگ لڑنے کا سلیقہ عطا کیا؟ ایک نہتی لڑکی کیسے بندوق والوں پر فتح یاب ہوئی؟ اس کی فتح کا راز کیا تھا؟ وہ تنہا ہونے کے باوجود سب پر بھاری کیوں تھی ؟
جنرل محمد ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف اور پھر جنرل قمر جا وید باجوہ جیسے طالع آزماؤں نے اس قوم کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ قابلِ معافی نہیں۔ جنرل حمید گل، جنرل فیض حمید، جنرل شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام کی سیاسی معاملات میں مداخلت نے جو گل کھلائے وہ ناقابلِ برداشت ہیں۔ ایک طرف تو عسکری اداروں کی یہ کیفیت ہے، تو دوسری جانب کہیں مولوی مشتاق ہے، کہیں انوار لحق ہے، کہیں محمد ارشاد ہے، کہیں چوہدر ی محمد افتخار ہے، کہیں آصف سعید کھوسہ ہے، کہیں میاں ثاقب نثار ہے۔ ہرکوئی اپنے اپنے ایجنڈے سے جڑا ہوا ہے۔ کوئی آمر کو تین سال عنایت کرتا ہے، تو کوئی آمر کو 11 سالوں کی حکم رانی کا جواز فراہم کرتا ہے، کوئی قایدِ عوام کو پھانسی کی سزا سنا دیتا ہے اور کوئی عمر بھر کی نااہلی کا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ سب ذاتی مفادات کے اسیر ہیں۔ اُنھیں پروٹوکول اور عہدوں کی حرص نے اندھا کر رکھا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک انا پرست انسان تھے اور ان میں اپنے کام سے لگن اپنی انتہاؤں کو چھوتی تھی۔ ایک قوم پرست را ہنما شاید انانیت کی مکمل تصویر ہو تا ہے۔ وہ قوم کی تعمیر کی خاطربہت جلدی میں ہوتا ہے اور سستی اور کاہلی کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ اہم امور کو جلدی نپٹانا چاہتا ہے، لیکن بیورو کریسی اور انتشار پسند قوتیں اس کی راہ میں مزاحم ہو جاتی ہیں، تووہ شدتِ جذبات میں ریاستی قوت کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ کیوں کہ مقصد قوم کی تعمیر ہو تا ہے، لیکن جہاں تک پُرامن جد و جہد کا سوال ہے، تو ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ پُرامن جد و جہد کا علم تھامے رکھا۔ جنرل ضیاء الحق جیسے آمر کے سامنے وہ پورے قد سے کھڑا ہوا، لیکن نہتا ہونے کے باوجود اُس نے اسلحہ، گولی اور بندوق کی سیاست کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ اپنے پیرو کاروں کو جمہوری انداز سے آمر سے جنگ لڑنے کی ترغیب دی۔ جیالوں نے بھٹو کی جنگ جس شان د ار انداز میں لڑی، وہ تاریخِ عالم میں منفرد بھی ہے اور قابلِ فخر بھی۔ جن کو میری بات کا یقین نہیں آتا وہ لاہور قلعہ کے در و دیوار سے پوچھ لیں کہ جیالوں کی جرات و بسالت کے سامنے وہ کیوں رو دیا کرتے ہیں؟
اہلِ جہاں کو علم ہے کہ جیالوں کی داستانِ وفا لاہور قلعہ کے درو دیوار پر رقم ہے اور صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جرات و بہادری کی یہ داستان ایسے ہی دل کش اور پُراثر رہے گی اور جسے اُن درو دیوار سے کوئی کھرچ کر علاحدہ نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ بہادری کی داستانیں ایسے مٹا نہیں کرتیں۔ ایک وقت آئے گا کہ لوگ اس جد و جہد کا حوالہ دینا باعثِ فخر سمجھیں گے…… ایسا کرنے کا خواب دیکھیں گے، لیکن انجیر ہر پرندے کی غذا نہیں ہوا کرتی۔ آئین کے پرستاروں اور طاقت وروں کے درمیان یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور اسے ابد تک جاری رہنا ہے۔ طاقت اپنے ہونے کا جواز فراہم کرتی ہے، لیکن آئین کے متوالے انصاف و قانون کے لیے اپنی زندگیوں کا خراج دے کر طاقت کو سرنگوں کرتے رہتے ہیں۔ جان تو جاتی ہے، لیکن سرفروشوں کے لہو کی سرخ بوندوں سے جو معاشرہ قائم ہوتا ہے، اس کی اُجلتا اور دل کشی کا منظر بھی تو بڑا ہی حسین ہو تا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے آخری جیت آئین و انصاف کی ہی ہوتی ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء ا لحق، جنرل پرویز مشرف اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ تاریخ میں دفن ہو جائیں گے۔ کوئی ان کا نام لیوا نہیں ہوگا، لیکن وہ لوگ جو آئین و جمہوریت کے لیے اپنا لہو دیں گے اور زندانوں کی رونق بڑھائیں گے۔ تاریخ میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہ جائیں گے۔ سیاست کے نام پر جس طرح ایک مخصوص جماعت کو ریاستی جبر کا نشانہ بناکر جمہوریت کا خون کیا جا رہا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔
ستم کی انتہا دیکھیے کہ ایک مخصوص خاندان کو اقتدار کی مسندکا سزاوار بنانے کے لیے آئین و قانون کو جس طرح روندھا جا رہا ہے، وہ عوامی اذہان کو مزید بغاوت پر اُبھار رہا ہے۔ ایسا رویہ قومی یک جہتی اور اس کے اتحاد کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ جبر سے کبھی بہتر نتائج نہیں نکلتے۔
لہٰذا قومی مفاد میں ذاتی اَنا اور دشمنی کو دفن کرنا ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔