آزادی کے بعد قائدِ اعظم محمد علی جناح، اُن کے رُفقائے کار اور ہمارے دیگر بزرگوں نے جس سمت میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، گورنر جنرل غلام محمد خان نے اُسے موڑتے ہوئے دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کرکے تاریک منظر نامے میں تبدیل کر دیا۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے جب گورنر جنرل غلام محمد خان کے غیر آئینی فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا، تو اُن کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ اُن کے گھر پر پولیس کا پہرہ لگا دیا گیا اور وہ برقع پہن کر گھر کے پچھلے دروازے سے باہر نکلے اور ایک رکشے میں بیٹھ کر گورنر جنرل غلام محمد خان کے غیر آئینی فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ پہنچے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں فُل کورٹ نے 9 فروری 1955ء کو گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا، تو گورنر جنرل نے فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کی۔ گورنر جنرل نے ایک سازش کے تحت جونیئر جج جسٹس منیر احمد کو فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) کا چیف جسٹس بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی ’’حامی بینچ‘‘ بھی بنوائی۔ چیف جسٹس منیر احمد کی سربراہی میں پنج رُکنی بینچ نے 21 مارچ 1955ء کو چار ایک کی اکثریت سے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیا۔
بقولِ سیف الدین سیف
دیکھا تو پھر وہی تھے چلے تھے جہاں سے ہم
کشتی کے ساتھ ساتھ کنارے چلے گئے
ہم 77 سالوں سے وہاں کھڑے ہیں، جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا، اور یہ کمال ہمارے سیاست کی گلابی سنڈیوں، چت کبری سنڈیوں، امریکن سنڈیوں اور بعض اداروں کے وائرسز اور بیکٹیریاز کا ہے۔ اِن بلاؤں کا سایہ ریاستِ پاکستان پر اب بھی قائم ہے۔
پاکستانی سیاست اور جمہوریت دونوں کی حالت اُس یتیم کی سی ہے، جس کا کوئی چارہ گر نہیں کوئی نہیں جو اس یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھ دے۔ پاکستانی سیاست کی اس یتیم حالت کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست کے میدان میں کوئی بھی سیاسی لیڈر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کو تیار نہیں۔
ہر سیاسی لیڈر اپنے آپ کو سب سے بڑا لیڈر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو دودھ کا دُھلا ہوا جب کہ دوسرے کو چور اُچکا سمجھتا ہے۔ پاکستانی سیاست دان الیکشن کو تو بہت سنجیدہ لیتے ہیں، لیکن اُن کا مقصد محض اپنی سیاسی و سماجی اور ذاتی مفادات ہوتے ہیں نہ کہ قوم کی فکر یا پھر انقلاب!
دور دور نظر نہ آنے والے انتخابات کے انعقاد کے باوجود سیاسی بونوں نے سیاسی گھڑوں میں کنکریاں ڈالنا شروع کردی ہیں کہ پانی اوپر آکر وہ اپنی پیاس بُجھا سکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرادی کو شکوہ ہے کہ ’’نادیدہ قوتیں‘‘ ایک پارٹی کو تنِ تنہا کھیلنے کے لیے میدان فراہم کر رہی ہیں۔ اس لیے بلاؤل زرداری نے مطالبہ کیا کہ اُنھیں بھی ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ فراہم کی جائے۔ بلاؤل کے مطالبے کے بعد اب ہر سیاسی جماعت لیول پلینگ فیلڈ کی فراہمی نہ ہونے کا رونا رونے لگی ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ آنے والے انتخابات میں کیا ہونے والا ہے؟ ہر سیاسی پارٹی ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ فراہم کرنے کے مطالبے کو دُرست تسلیم کرتی ہے، تو اس حوالے سے ہم بھی قیاس کے گھوڑے دوڑاکر دیکھ لیتے ہیں کہ کس کس کو کھیلنے کی اجازت ہے اور کس کس کے کھیلنے پر پابندی ہے؟
پاکستان مسلم لیگ نون کو پورے ملک میں کنونشنوں، جلسے جلوسوں اور ہر طرح کے احتجاج کے انعقاد کی اجازت ہے۔ عدالت کے اشتہاری مجرم میاں محمد نواز شریف کو پاکستان آنے پر سفارتی پروٹول دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔
اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی پر کبھی کوئی پابندی نہیں۔ ایم کیو ایم آزاد سیاسی فضا میں اُڑ رہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کو کہیں بھی جلسے کے انعقاد اور احتجاج کی آزادی ہے۔ جماعتِ اسلامی چاروں صوبوں میں گورنر ہاؤسوں کے سامنے احتجاج کرنے میں آزاد ہے، جب کہ جماعت کی دوسری سیاسی سرگرمیوں پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ ملک کی دیگر سیاسی پارٹیاں بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف واحد سیاسی جماعت ہے کہ وہ جلسہ کرسکتی ہے، نہ جلوس کا اہتمام، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کرنے کی مجاز ہے اور نہ فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہرہ ہی کرسکتی ہے۔ اگر کوئی ایسا قدم اُٹھائے بھی، تو اُس کے رہنماؤں اور ورکروں کے خلاف ملک کے ہر پولیس سٹیشن میں مقدمات درج کر دیے جاتے ہیں۔ پھر اُنھیں پورے ملک میں مقدمات بھگتنا پڑتے ہیں۔
قارئین! چلیں مان لیتے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے 9 مئی کو غلط کیا۔ اُس کی وجہ سے زیرِ عتاب بھی ہے۔ اس کی پاداش میں تحریکِ انصاف کے بعض سرکردہ رہنما قید ہیں۔ بعض کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
چلیں، حکومت کے اس قدم کو بھی درست مان لیتے ہیں، مگر تحریکِ انصاف کے جو مرکزی، صوبائی، ضلعی اور مقامی رہنما مئی کے واقعات میں ملوث نہیں، تو اُن سے اُن کا آئینی حق کیوں چھینا جا رہا ہے؟
نگران وزیرِ اعظم، وزرا اور الیکشن کمشنر آف پاکستان رطب اللسان ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں کی اجازت ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد دعوا ہے۔
’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا مطالبہ کرنے والے جو بھی سرگرمی کرنا چاہیں، کرسکتے ہیں…… لیکن تحریکِ انصاف کو اس کی فراہمی تو دور کی بات، اُن میں کوئی اپنے گھر کے اندر تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا نام تک نہیں لے سکتا، اور اگر کسی نے غلطی سے مذکورہ نام لے بھی لیا، تو پھر اُسے پورے ملک میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نگران حکومت کا یہ رویہ اگر اسی طرح جاری رہا، تو آنے والے انتخابات کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔