غُبارا (اُردو، اسمِ مذکر) کا اِملا عام طور پر ’’غُبارہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
مذکورہ اسم کے اِملا کے حوالے سے تین مختلف آرا ملتی ہیں، جو درجِ ذیل ہیں:
پہلی رائے ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’نوراللغات‘‘ اور ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ کے مولفین کی ہے، جن کے مطابق دُرست اِملا ’’غُبارا‘‘ ہے۔
دوسری رائے ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘، ’’فرہنگِ تلفظ‘‘، ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے )‘‘، ’’جامع اُردو لغت‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘، ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ اور ’’حسن اللغات (جامع)‘‘ کے مولفین کی ہے، جن کے مطابق دونوں طرح کا اِملا (’’غبارہ‘‘ اور ’’غبارا‘‘) دُرست ہے۔
اس طرح تیسری رائے ’’اظہر اللغات‘‘ اور ’’فرہنگِ عامرہ‘‘ کے مولفین کی ہے، جن کے مطابق صرف ’’غبارہ‘‘ اِملا ہی درست ہے۔
محولہ بالا تینوں حوالوں کے علاوہ سب سے معتبر حوالہ رشید حسن خان کی کتاب ’’اُردو اِملا‘‘ (مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، سنہ اشاعت ’’2015ء‘‘) کے صفحہ نمبر 96 اور 98 پر ملتا ہے، جہاں مذکورہ اسم کا اِملا ’’غبارا‘‘ درج ہے۔
اس طرح صاحبِ آصفیہ نے بغیر کسی شاعر کے حوالے کے یہ شعر بھی درج کیا ہے، جو ایک طرح سے ’’غبارا‘‘ کے دُرست املا ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے:
سوزِ دل بعدِ فنا بھی آشکارا ہوگیا
جب غُبار اُٹھا ہمارا اِک غبارا ہوگیا
یہ شعر صاحبِ نور نے شیخ امداد علی بحرؔ سے منسوب کیا ہے۔
صاحبِ آصفیہ نے آخر میں جملۂ معترضہ کے طور پر یہ سطر بھی درج کی ہے: ’’شیخ امداد علی بحرؔ نے مُشدّد (غُبّارا) بھی باندھ دیا ہے، مگر غلط اور غیر فصیح ہے۔‘‘
نیز یہ شعر بھی حوالتاً درج کیا ہے:
اُڑے گا گنبدِ افلاک بنے غُبّارا
جو میری آہِ جہاں سوز کا دُھواں پہنچا
صاحبِ نور نے اس حوالے سے کچھ یوں درج کیا ہے: ’’بحرؔ نے بہ تشدیدِ دوم (غُبّارا) بھی کہا ہے۔ اب فصحا کی زبانوں پر بغیر تشدید ہے۔‘‘
’’غبارا‘‘ کے معنی ’’ایک قسم کی آتش بازی جو ایک باریک کاغذ کا تھیلا بناکر اُس کے اندر تیل کی بھیگی ہوئی گیند روشن کرکے ہوا میں اُڑاتے ہیں‘‘، ’’ہوا یا گیس بھر کر پُھلائی ہوئی شے جو ہوا سے ہلکی ہو، تو اُوپر اُڑتی ہے‘‘ کے ہیں۔