ہمارے گھروں کی روایت ہے کہ جب گھر میں کوئی زیادہ زور زور سے ہنسے یا کوئی بچہ قہقہے لگائے، تو کہا جاتا ہے کہ ہنسی کے بعد رونا بھی ہے…… اور اکثر وہ بچہ اُس کے بعد رونے بھی لگتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
اپنا تو یہ حال ہے کہ کہیں بھی کھل کر خوش نہیں ہوسکتا کہ فنا ہونے کا غم سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ گویا یہ روایت دُوئی پہ ہے کہ جہاں خوشی وہاں غم، جہاں ہنسی وہاں رونا…… اسی طرح جہاں مروجہ ترقی، وہاں پستی اور مسائل اور ہمارے مطالبے دوسرے الفاظ میں رونا۔
مثلاً 15 سال پہلے تک یہاں انٹرنیٹ دست یاب نہیں تھا۔ لہٰذا کم از کم سگنل اور مختلف موبائل نیٹ ورک پر انٹرنیٹ نہ ہونے کا مسئلہ تو نہیں تھا۔ اسی طرح جب یہاں سکول نہیں تھے، تو کم از کم سکولوں میں اساتذہ کے نہ ہونے یا اُن کی جانب سے نہ پڑھانے کا مسئلہ تو نہیں تھا۔
اسی طرح اُس وقت شاید کوئی موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ بھی نہیں تھا کہ انسانوں نے ترقی نہیں کی تھی۔ کرکٹ کا رواج نہیں تھا، تو گراؤنڈ کا مطالبہ بھی نہیں تھا۔ لوگ گھروں کی چھت پر ’’أنگیلکأن‘‘ (خوزے یا بیری توتأ) کھیلتے۔
لوگوں کے پاس ترقی یعنی جدید دولت نہیں تھی، تو وہ شادی بیاہ میں موسیقی بجانے یا سننے کے آلات برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے غیر شرعی رسم کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ دلہن کی ایک بیگیِل (کپڑے کی ایک منقش تھیلی جس میں دلہن کے ایک دو جوڑے کپڑے اور کنگھی اور آئینہ وغیرہ رکھا جاتا تھا) ہوتی تھی۔ اس لیے کوئی ’’رسم مٹاؤ‘‘ والی ٹینشن بھی اپنے سرنہیں لیتا تھا۔ گاؤں گاؤں لاؤڈسپیکر نہیں تھے۔ گھڑیاں نہیں تھیں۔ لوگ سورج کے سفر کو دیکھ کر نمازیں پڑھتے اور مولوی صاحب اپنی سادہ آواز میں قرات کرتے۔ گاؤں میں روزے اس وقت کھولے جاتے، جب دوسرے گاؤں سے کوئی بھلا آدمی لام نکالتا/ شعلہ اُٹھاتا۔ اس لیے ہر محلے میں لاؤڈسپیکر والا شور نہیں تھا اور اس پر کوئی مضامین نہیں لکھتا تھا۔ کسی کو شور کی شکایت نہیں ہوتی تھی۔
یہی صورت حال بجلی کی بھی تھی۔ لوگ لھے (لیویل) جلا کر شام ہی کو کھانا کھا کر اور مویشیوں کو چارا ڈال کر سوجاتے۔ اس لیے بجلی جانے اور خراب ہونے کا مسئلہ نہیں تھا۔
اس طرح اسپتال نہیں تھے، تو لوگ اپنے مقامی علم کی بنیاد پر بیماریوں کو ’’ہسپا‘‘، ’’سورا مُوخ‘‘، ’’پھأ‘‘، ’’پھییک‘‘، ’’جذام‘‘، ’’سابندی‘‘ وغیرہ نام دے کر مقامی طور پر ہی ’’نأ‘‘، ’’سپیرگی‘‘، ’’سپلینی‘‘، ’’نمے‘‘، ’’بین‘‘، ’’ہارڑہ‘‘، ’’ہلی‘‘ وغیرہ سے کام چلاتے۔
دل کے امراض کو کسی جن کے پیٹھ پر ہاتھ مارنے سے تشبیہ دے کر مطمئن ہوجاتے۔ یہ ’’ایلوپیتھک‘‘، ’’ہومیوپیتھک‘‘ ادویہ نہیں تھیں۔
گاؤں گاؤں کو سڑکیں نہیں جاتی تھیں۔ لہٰذا ان سڑکوں کی مرمت یا بدحالی کا مسئلہ تک نہیں تھا۔ سارے پہاڑی راستے پتھروں کے تھے اور اُنھی پہ لوگ چلتے رہتے تھے۔
اس مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی بھی نہیں تھی۔ لہٰذا روحانی مسائل بھی نہیں تھے۔ مولوی صاحب عید اور جمعے کو ایک کتابچے سے پشتو میں خطبہ پڑھتے اور لوگ اس کو سنتے مگر سمجھتے نہیں تھے۔ اخلاق کا یہ معیار نہیں تھا اور نہ کوئی ان کو اس قدر جج ہی کرتا تھا۔ اخلاق اور اقدار بھی سادہ تھیں۔ کوئی تہذہب و تمدن کی بات نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی اس قدر اخلاق و اقدار کے بارے میں حساس تھا۔ فوتگی اور غم کے لیے مساجد، موبائل یا فیس بک پر اعلانات نہیں ہوتے تھے۔ اس کے لیے گاؤں گاؤں ’’داروغے‘‘ یعنی اس وقت کے صحافی ہوتے تھے اور مرکزی داروغہ یعنی ’’وزیرِاطلاعات‘‘ بھی ہوتا تھا، جو کسی ’’یرک‘‘ (جرگہ) کو بلانے کے لیے اطلاعات دیتا تھا۔
مجھے وہ سادگی پسند ہے، مگر اس کے لیے اب کسی اور سیارے پہ جانا ہوگا کہ یہاں اب ایسا ممکن نہیں!
مطلب یہ ہوا کہ ہماری یہ ثقافت/ تہذیب، ترقی اور جڑے مسائل سب ایک کڑی میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے سفر کرتے ہیں۔ ان کا حل کسی ایک نکتۂ نظر سے یا ایک گروہ سے ممکن نہیں اور نہ ہم کسی اور سیارے پہ الگ تھلگ زندگی جیتے ہیں۔ دنیا کو مریخ کہنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم ایک بہت بڑے معاشرے کا حصہ ہیں اور اب یہ معاشرہ عالم گیر ہوچکا ہے۔ بس کچھ وقت کے لیے
مھوئے آمن ٹھمانین!
دھأک خوشال ہونیِن!
ای ما پھائے کی نہ ہوبھادُو خا!
بس ایک دئی سیت قس کوا!
ایک دئی سیت بات نہ کوا!
ایک دئی زید ٹھپہ یادے تُن تنُو گھو وا!
یعنی ’’ہم خود کو ویسے تھکا دیں گے۔ کچھ کچھ خوش ہوں گے کہ کام ہم نے بڑا کیا۔ کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ بس ایک دوسرے کی مخالفت کرلیں۔ آپس میں بات چیت نہ کریں۔ ایک دوسرے پہ ٹھپے لگا کر اس نامراد دوڑ میں اپنے گھوڑے دوڑائیں۔
شاباش……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔