برطانیہ اور امریکہ نے دوسری جنگِ عظیم میں جب 6 اگست کو ہیروشیما اور 9 اگست 1945ء کو ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے، تو 15 اگست کو جاپان نے سرنڈر کیا، یعنی شکست تسلیم کی۔ تباہی اور بربادی کے بعد جاپان ایک قوم بن کر اُبھرا اور آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ حالاں کہ اُن کے پاس قدرتی وسائل اور افرادی قوت نہ ہونے کی برابر تھی۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
اس کے برعکس پاکستان ایک ایسا بدنصیب یا خوش نصیب ملک ہے کہ افرادی قوت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دوسروں کا دست نگر بن چکا ہے۔ ہمیں اُمورِ سلطنت چلانے کے لیے ہر سال دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا کر قرض مانگنا پڑتا ہے، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم آزادی کے بعد سے اب تک اپنے آپ سے لڑ رہے ہیں۔
ہماری بدقسمتی کا آغاز اُس وقت سے ہوا جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 1954ء میں جو آئینی مسودہ تیار کیا، اُسے غلام محمد خان کے سازشی ٹولے نے آنکھ کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ 1956ء کے آئین کو دستخط سے نوازنے والے سکندر میرزا نے آئین کو ’’لغویات کا پلندا‘‘ قرار دیا۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے قوم کو بقلمِ خود جو دستور عطا کیا تھا، وہ اُسے ہری پور کے موضع ریحانہ جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔
ایک مسودہ جنرل یحییٰ خان نے بھی لکھوایا تھا، لیکن اپنے آپ سے لڑتے لڑتے ہم نے اسے بحیرۂ بنگال میں ڈبو کر ملک کو دو لخت کردیا، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا۔ ملک دولخت ہونے کا سبب اپنے آپ سے لڑائی ہی تو تھا۔
1973ء میں سیاسی قائدین نے جو آئین منظور کیا، اُس پر بھی ہماری لڑائی اور غیر جمہوری جنگ سے لگے اَن گنت زخم موجود ہیں۔
آئین کی چادر کو تار تار کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم یہ لڑائی جیت چکے ہیں، مگر جیت کس سے…… اپنے آپ سے کوئی جیت سکا ہے بھلا، البتہ ہارا ضرور ہے۔
12 اکتوبر کی ایک شام کو لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد ایک منتخب وزیرِ اعظم سے کَہ رہا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آئین اور قانون کیا ہوتا ہے…… یہ ہم آپ کو بتائیں گے!
آپس کی انھی لڑائیوں میں ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر لٹکایا۔ اُس کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بے رحمی سے قتل کیا، جب کہ سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو دو بار خود ساختہ جَلا وطنی کے عذاب سے گزرنا پڑا۔
ہم آج بھی یہی کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2018ء سے پی ڈی ایم میں شامل سیاسی پارٹیاں اور تحریکِ انصاف آپس میں مشت و گریباں رہیں۔ اس آپسی لڑائی کے سبب عام آدمی مہنگائی کی چکی میں بے وقت پستا چلا گیا، جب کہ برداشت نہ کرسکنے والوں نے اپنے بچوں کو موت کی نیند سلا کر خود کُشی کی اور اب بھی کر رہے ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت بظاہر اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے، لیکن موجودہ نگران حکومت پی ڈی ایم کا تسلسل اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ ہے۔ وہ بھی اپنے خلاف لڑائی میں جُت گئی ہے۔ مفادات کی اسیر، اندھے سیاسی قائدین اور خلائی مخلوق ایک دوسرے کو گرانے میں مصروف عمل تھے اور ہیں۔ ایک نگران حکومت کے ہوتے ہوئے کار ہائے حکومت نگرانوں کی بجائے اب بھی اسٹیبلشمنٹ والے چلا رہے ہیں۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے تاجر برادری سے ایک ملاقات میں کہا ہے کہ ہمارے طرزِ حکمرانی میں پائی جانے والی بیماریوں سے نمٹنے کا بنیادی چیلنج کسی کی توجہ کا مرکز نہیں۔ سویلین انتظامیہ کی پوری مشنری کوئی کام نہیں کررہی اور کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ معیشت اور خراب طرزِ حکم رانی سمیت تمام شعبہ جات میں ہماری ناکامی کی اہم وجوہات سمگلنگ نہ روکنا، قبضہ مافیا اور بدعنوانی ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر ریاستی مسائل حل کریں گے۔ وفاقی سطح پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبوں میں سرو اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن محکموں کو جی ایچ کیو ملٹری سیکرٹری کے برانچ کے طرز پر چلانے کے فیصلے سے بڑا فرق نظر آئے گا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت (خاص کر پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریکِ انصاف) اور دیگر سیاسی جماعتوں میں بدعنوان عناصر موجود ہیں۔
جنرل صاحب نے تحریکِ انصاف کے سابق وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک، سابق وزیرِ اعلا خیبر پختونخوا اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کل کیا تھے اور آج کیا ہیں؟ درست کام کے درست افسر مقرر کرنے کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ ہر سطح پر ترقی یا تقرر سیاسی یا اثر و رسوخ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ سویلین بیورو کریسی جن مسائل سے دوچار ہے، انھیں حل کرنے سے ہمارے طرزِ حکم رانی سے نتھی بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ 75 سالوں میں 20 سے زیادہ کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کو تحقیقاتی رپورٹس اور تجاویز پیش کی گئیں، لیکن زیادہ تر مجوزہ اصلاحات پر سیاسی وجوہات کی بنیاد پر عمل نہ ہوسکا۔ بیورو کریسی کو سیاست سے پاک کرنے پر سیاست دان آمادہ نہ ہوئے۔ سول سروس ریفارمز کی تاریخ بتاتی ہے کہ سول بیورو کریسی سے زیادہ سیاسی قیادت اور حکم ران نظام کو بہتر بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ خود بیورو کریسی کے معاملات میں مداخلت سے باز نہیں آتے۔ چار سالوں سے دوست ممالک سے ایک ارب کی سرمایہ کاری ہوگی، جس کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر قسم کی رکاوٹ کو دور کرنے کے پہلے ہی سپیشل انوسمنٹ انسپکشن کونسل (ایس آئی ایف سی) بنادی گئی ہے، جس میں فوج کا کلیدی کردار ہوگا۔
جنرل صاحب نے اور بھی بہت کچھ کہا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کاروبارِ حکومت اسٹیبلشمنٹ ہی نے چلانا ہے، تو نگرانوں اور بعد ازاں سیاسی حکومتوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟
جنرل صاحب نے تو تحریکِ انصاف کے سابق ارکان پر کرپشن کا الزام لگا دیا، تو کیا دوسری سیاسی پارٹیاں دودھ کی دھلی ہوئی ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت آج بھی وہاں کھڑی ہے، جہاں 1954 ء میں کھڑی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔