غیر مساوات (Inequality) اور مقبولیت (Popularity) کی نہ روکنے والی خواہش کو اس مائع جدیدیت (Liquid Modernity) کی دو اہم خصوصیات سمجھا جاتا ہے۔ دنیا جس قدر عالم گیر (Global) ہوتی جارہی ہے، اُسی رفتار سے انسانوں کے بیچ وسائل اور ذرائع میں فرق کے ساتھ سماجی، علمی، فکری اور ثقافتی اونچ نیچ بھی بڑھ رہی ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
اس دور میں اگر کوئی شے انسان کو کسی مذہب، ثقافت، نسل، رنگ، علاقہ، زبان اور جنس سے بالا ہوکر جامع طور پر متاثر کرتی ہے، تو وہ دولت ہے۔ اس کے ساتھ جو دوسری شے متوازی چل رہی ہے، وہ مقبول/ مشہور ہونے کی آرزو ہے۔ دونوں کی منزلِ مقصود ایک ہی ہے، یعنی ’’طاقت‘‘۔ یہاں طاقت سے مراد جسمانی طاقت نہیں، بلکہ سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی طور پر پنہاں وہ مظہر ہے، جس کی بدولت لوگ دوسروں پر حکم رانی کرتے ہیں، یا دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
قدیم ثقافتوں میں غربت کو سراہا جاتا تھا اور اس کو ایک نعمت مانا جاتا تھا۔ ایک لحاظ سے اس کو اب اس دلیل کی بنیاد پر نعمت کہا جاتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے لوگ غیر اخلاقی سرگرمیاں نہیں کرسکتے۔ تاہم اگر اخلاق کے اعلا معیار پر پرکھا جائے، تو ان غیر اخلاقی سرگرمیوں سے اسی طرح کا اجتناب مجبوری میں کیا جاتا ہے، نہ کہ شعوری طور پر۔ شعوری طور پر غیر اخلاقی اور غیر انسانی کاموں سے بچنا ہی شخصیت و کردار کا اصل امتحان ہوتا ہے! غربت ایک سماجی اور معاشی لعنت بن جاتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ غربت فطری ہوتی ہے بلکہ یہ سماجی و معاشی سرگرمیوں اور ان کی پشت پر کھڑے مختلف نظاموں کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے۔ غربت ایک اضافی (Relative) مظہر ہے، اور دوئی پہ بنیاد کرتی ہے۔ مطلب یہ وسائل، ذرائع اور مواقع کی غیر مساویانہ تقسیم سے پیدا ہوتی ہے۔ جہاں دولت ہو وہاں پہ غربت بھی ہوگی۔ اگرچہ اس کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ مثلاً: آج سے 60، 70 سال پہلے جو شخص اپنے اس وقت موجود وسائل اور ذرائع کی بنا پر دولت مند گردانا جاتا تھا۔ آج وہی شخص انھی ذرائع اور وسائل کے ہوتے ہوئے غریب گردانا جاسکتا ہے۔
غربت یا غریب ہونا گھریلو زندگی کے ساتھ سماجی تعلقات اور رسوم کو متاثر کرتی ہے۔ جہاں غربت گھر پر اہل و عیال کی درست طور پر دیکھ بھال سے بندے کو روکتی ہے، وہاں یہ سماجی تعلقات اور ان سے پیدا ہونے والی رسومات کو شخصی و اجتماعی طور پر متاثر کرتی ہے۔ زمینی حقائق سے چند مثالوں سے اس کو بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔
غربت میں پھنسے خاندان اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت مروجہ اچھے طریقوں سے نہیں کرسکتے۔ وہ اُن کی بیماریوں کا علاج بروقت نہیں کرسکتے۔ ان کو اچھی اور وافر خوراک مہیا نہیں کرسکتے۔ یوں یہی بچے بڑے ہوکر سماجی مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور یوں غربت کی جڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں۔
غریب چوں کہ کسی کو کچھ کھلا پلا نہیں سکتا اور نہ کسی کو قرض اُدھار دے سکتا ہے، اس لیے اس کے دوستوں کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے۔ وہ دھتکارا جاتا ہے اور سماج کے حاشیے پہ رہتا ہے۔ اس لیے ہم نے اپنے اس سماج میں کسی غریب کو زعما اور عمائدین کی صف میں نہیں دیکھا۔ ہمارا سماج چوں کہ اب بھی بڑی حد تک بند سماج (Closed Society) ہے۔ اس لیے یہاں علمی و فکری حلقے بھی ان صفوں میں جگہ نہیں پاسکتے۔ ہمارے معاشروں میں زعما اور عمائدین ہونے کے لیے کسی خاص تجربے یا علم کی ضرورت نہیں۔ بس دولت ہونی چاہیے۔ اب علما البتہ خود کو ان زعما اور عمائدین میں شمار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے ان کے پاس اگر دولت نہ ہو، تو واحد ہتھیار مذہب کی تبلیغ ہوتا ہے…… لیکن یہ بھی تو ہماری ثقافت میں عام ہے کہ ’’خوا ملان سی مسل ہُم خوا ہودی!‘‘ یعنی جس عالم/ مولوی کے پاس دولت نہ ہو، کوئی اس کی بات نہیں سنتا!
جب غریب کا یہ دائرہ اور سماجی اثر و رسوخ محدود ہوتا ہے، تو اس کو ہمارے سرکاری ادارے بھی مسلسل لتاڑتے ہیں۔ کسی کو اگر اس پر شک ہے، تو کسی سرکاری آفس یا عدلیہ جاکر مشاہدہ کرلے کہ کس طرح غریب کو دھتکارا جاتا ہے۔
کیا آپ نے اس کا مشاہدہ کیا نہیں کہ غریب خاندانوں کی غمی میں بھی لوگوں کی شرکت کم ہوتی ہے! فاتحہ پڑھنے/ ہاتھ اٹھانے والی رسم ادا کرنے ان کے ہاں کم لوگ جاتے ہیں۔ البتہ بھلا ہو ووٹ کا کہ سیاسی امیدواران ایسے گھروں میں بھی جانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔
غریب اگر پیدایش، بلوغت، شادی بیاہ اور غم یا موت سے وابسطہ کوئی رسم شعوری طور پر بھی ادا نہ کرے، تو ہم سب اس سے صرفِ نظر کرتے ہیں اور دل ہی دل میں سوچتے ہیں کہ اس کی تو ایسا کرنے کی معاشی یا سماجی طاقت ہی نہیں تھی۔ اس کے برعکس کوئی امیر شخص ایسی رسومات ادا نہ کرے، تو وہ برسوں اس کو جتاتا ہے کہ گویا اس نے دین پر کوئی احسان کیا ہے اور ہمارے اہلِ علم ان افراد کی مسلسل مثالیں دے کر ان کی خوش نودی حاصل کرتے ہیں!
ہمارے اہلِ علم بھی ان زعما اور عمائدین سے متاثر ہوتے ہیں۔ تاریخ بھی اس کی گواہی دیتی ہے کہ علم اکثر دولت کی لونڈی بنا رہا ہے۔ بادشاہوں کے درباروں میں اہلِ علم نے بھی ماتھے رگڑے ہیں۔ مذکورہ اہلِ علم و ادب نے بادشاہوں کے قصیدے بھی لکھے اور گائے ہیں۔
اس طرح متاثر ہونے کی وجہ ہے کہ ہمارے اہلِ علم اصل رسوم کی طرف توجہ نہیں دیتے جن کی وجہ سے انسانوں کو اُن کا حق نہیں دیا جاتا۔ ہمارے کئی قوانین بھی بس دولت مندوں کی حفاظت کے لیے بنے ہیں اور ان کو نافذ کرنے والے بھی دولت مندوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ مثلاً سورہ کیس (جو کئی لحاظ سے بہت برا فعل ہے کہ ایک بندے کے جرم کی سزا ہماری روایت میں دوسرے کو دی جاتی ہے) پر تو قانون بڑی حرکت میں آجاتا ہے، لیکن خواتین کو وراثت میں حق نہ دینے پر یہی قانون خاموش ہوجاتا ہے۔ ہمارے منبروں سے بھی ان سماجی مسائل پر اور زکات پر بات کم کی جاتی ہے! (معذرت خواہ ہوں۔) میری ایک دادی نے پوری عمر اپنے بھائی سے وراثت میں حصّہ لینے میں عدالتوں کے چکر کاٹتے گزاری۔ وہ کہتی تھیں کہ اس سلسلے میں وہ ’’مردِ مومن مردِ حق ضیاء الحق‘‘ سے بھی ملیں، تاہم ان کو پھر بھی یہ حصّہ نہیں ملا!
ہماری ہی کیا دنیا کی بیشتر ثقافتوں میں مردوں نے سارے ضابطے خواتین کے لیے بنائے ہیں۔ سارے سماجی، سیاسی اور معاشی فیصلے مرد کرتے ہیں اور خواتین کا اس فیصلہ سازی میں صفر برابر بھی کردار نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان ضابطوں کی شکار خواتین ہی ہوجاتی ہیں۔ دین نے بھی خواتین کو عائلی اور عوامی امور سے نہیں روکا۔ ہمارے بعض ثقافتی اقدار ایسا کرتے ہیں!
چوں کہ اس مضمون کے پہلے جملے میں مائع جدیدیت اور مقبولیت والی اصطلاحات استعمال کی ہیں، اس لیے ایک مختصر نظر ان پر بھی۔
جدیدت کو شاید سب جانتے ہیں۔ مائع جدیدت سے مراد یہی ہے کہ حالیہ دور میں روایتی بلکہ سرکاری ادارے اور سماجی و ثقافتی سانچے پگھل رہے ہیں۔ کسی بھی نظریے، شناخت اور ثقافت میں ٹھراو یا جمود نہیں رہا۔ سب کی مثال مختلف گلاسوں میں پڑی برف کی ہے جو پگھل کر پانی ہوجاتی ہے اور ان گلاسوں کا یہ پانی آپس میں مل جاتا ہے۔ نظریات اور مختلف نظام اپنے معنی کھو رہے ہیں۔ معلومات کا اتنا بہاو ہے کہ سر چکرا جاتا ہے۔ لوگوں کو سچ کی نہیں بلکہ شہرت کی تلاش ہے۔ مثال کے طور پر میڈیا اور سوشل میڈیا دیکھیں۔ اب یہ تاثرات (Impressions) اور مقبولیت بنانے کی دنیا بن چکی ہے۔ کسی کو لگے کہ اس کی مقبولیت کسی دوسرے کے مقابلے میں کم ہورہی ہے، تو کئی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ثقافت، نسل، جنس، مذہب اور قومیت کا استعمال نمایاں ہے۔ پاکستان میں بھی یہ بڑے اور چھوٹے دونوں سطحوں پر دیکھا جاتا ہے۔
سیاست دان اب کسی نظریے سے نہیں جُڑتے بلکہ بیانیوں سے جُڑتے ہیں، جہاں چیخ چیخ کر مخالف کی ذاتی زندگی سے لے کر اعتقادات پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اسی مقبولیت کے لیے کبھی ایک پلیٹ فارم بنایا جاتا ہے، تو کبھی دوسرا۔ اپنا نیٹ ورک وسیع کرنے کی دوڑ ہے تاکہ مقبولیت بڑھ جائے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔