رسم و رواج

A Writeup by Zubair Torwali

  ہر کلچر میں رسوم ہوتی ہیں۔ کلچر اور رسوم پر بات کرنے سے پہلے ایک نظر فطرت (Nature) پر لازم ہے کہ اس کو سمجھے بغیر کلچر کو اور پھر رسوم کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔
نیچر یعنی فطرت سے مراد وہ مادی مظاہر ، حرکیات اور عمال (Processes) ہیں، جو انسان کی پیداوار نہیں اور انسانی حرکیات سے ان کا تعلق نہیں، مگر ان کی طاقت، قوت اور وجوہات کی بنا پر انسانی سرگرمیاں طے پاتی ہیں۔ اس کو آسانی سے سمجھنا ہو، تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ فطرت کے قوانین انسان کے قابو میں یا اس کی پیداوار نہیں، بلکہ یہی قوانین اور مظاہر اس کرۂ ارض پر انسان کی جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، علامتی اور غیر مرئی سرگرمیوں کا سبب بنتے ہیں۔ فطرت کے ان مظاہر سے انسان کے تعلق اور اس کی وجہ سے مختلف مادی، ذہنی، خیالی، تصوراتی، حیاتیاتی سرگرمیاں جب پیدا ہوتی ہیں، تو ان کو وسیع تناظر میں کلچر (Culture) کہا جائے گا۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
کلچر اتنی وسیع شے ہے کہ اس کی کوئی ایک جامع تعریف ممکن ہی نہیں۔ ایک مایہ ناز ماہرِ بشریات نے کلچر کی 168 تعریفیں جمع کر رکھی ہیں۔ تاہم کلچر کے کئی پہلوؤں کو اس کے اظہاری اور علامتی (Expressive and Symbolic) عمال سے پہچانا جاتا ہے، جن میں ایک اہم رسم (Ritual) ہے۔
رسم کے پنپنے کی تاریخ اور وجوہات اپنی جگہ، تاہم اس کو اکثر یوں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ وہ علامتی اظہار ہے جس سے سماجی تعلقات، رُتبہ اور معاشرے میں افراد کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ رسم کو کسی قوم یا کلچرل گروہ کی غیرمرئی روحانی میلان اور اس کے اقدار سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔
انسانوں کو جہاں تعقلی (Rational)، معاشی، سیاسی اور کھیل کودنے والی مخلوق کہا جاتا ہے، وہی پہ انسان رسم اور تکلم کا امتزاج بھی ہے۔ جس طرح زبان علامات کا ایک نظام ہوتی ہے، جو فوری اور جذباتی اصولوں پر کار فرما ہوتی ہے، اِسی طرح رسم ایسے ہی جذباتی اصولوں کی بنیاد پر علاماتی سرگرمی کا نام ہے۔
کئی ماہرین کے ہاں رسم سے مراد انسان کی اپنے اردگرد طبعی (Physical) اور سماجی ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی جوابی کارروائی ہے۔ دنیا کی ہر ثقافت میں رسوم موجود ہوتی ہیں اور تاریخی طور پر بھی یہ انسانی سماجوں میں ہر دور میں رہی ہیں۔ رسم اور روزمرہ کی سرگرمیوں میں بنیادی فرق رسم میں موجود تقدیس یعنی غیر مرئی دنیا اور ناپاکی یعنی زماں و مکاں اور علت و معلول کا ہونا ہے۔ مطلب یہ کہ رسوم، سماجوں میں تقدیس یا ناپاکی کے تصورات کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ اُسطور رسوم کی پیدایش اور افزایش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اُسطور اور عقائد کو اس تقدیسی عالم کے اظہار کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، جہاں افراد کا کردار یہی دو تصورات، تقدیس اور ناپاکی، متعین کرتے ہیں۔
اگرچہ تقدیس اور ناپاکی کی اس دوئی کو آفاقی مانا جاتا ہے، تاہم ان کی تفہیم مختلف کلچروں میں بلکہ ایک ہی کلچر کے اندر مختلف ہوجاسکتی ہے ۔ جو شے ایک کلچر میں ناپاک ہے، کسی دوسرے کلچر میں وہ پاک ہوگی یا کوئی عمل کسی کلچر میں کسی ایک زمانے میں پاک ہو اور پھر وہ ناپاک ٹھہرے۔ اسی طرح کسی ایک کلچر کے اندر کوئی عمل کسی بادشاہ یا ولی کے لیے پاک یا ناپاک ہو جب کہ عوام کے لیے اُس کی حیثیت بالکل اُلٹ ہو۔
مضمون گنجلک ہورہا ہے۔ اس کی مزید تفصیلات میں جانے سے پہلے رسوم کی ایک اہم لڑی کی طرف لوٹتے ہیں۔
رسوم کی ایک بڑی لڑی/ مرحلوں کو آغازی رسوم (Rites of Initiation) کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ ررسوم ہیں جو انسانی زندگی کے ان حیاتیاتی، سماجی اور پیشہ ورانہ مرحلوں سے جڑی ہوتی ہیں، جن سے ایک فرد زندگی میں کوئی دوسرا مرحلہ یا سماجی رُتبہ حاصل کرتا ہے۔
انسانی زندگی میں اہم مرحلے پیدایش، ختنہ، بلوغت، شادی اور موت ہیں۔ دنیا کی ہر ثقافت میں جب کوئی فرد ان مراحل سے گزرتا ہے، تو اس کے لیے کئی رسوم ادا کی جاتی ہیں۔
دوسری جانب سماجی اور پیشہ ورانہ رُتبے سے منسلک رسوم کی مثالیں کسی بادشاہ کی تاج پوشی، جامعات و مدارس میں طلبہ و علما کی دستار بندی وغیرہ ہیں۔ ایسے آغازی رسوم میں سال گرہ، برسی، نئے سال کی رسوم اور مختلف موسمی تہوار بھی شامل ہوتے ہیں کہ ان کا تعلق بھی زیست کے ان درجوں سے ہے۔
چوں کہ یہ رسوم انسانی حیات اور رتبوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لیے یہ ہر معاشرے میں مختلف صورتوں میں موجود ہوتی ہیں۔
رسوم کا تعلق عقل سے نہیں، انسانی جذبات اور احساسات سے ہوتا ہے۔ چوں کہ ان کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے، اس لیے ان میں فائدے اور نقصان کا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی رسوم مستقبل میں افراد اور خاندانوں کی معیشت تباہ کردیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یعنی داردی بشمول توروالی لوگوں میں پیدایش، شادی اور موت جیسے مراحل سے وابستہ رسوم پختہ تھیں اور کئی اسلام کے بعد بھی جاری رہیں۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ کوئی 70، 80 سال پہلے جب یہاں کسی کے ہاں فوتگی ہوتی تھی، تو میت کو اُس وقت نہیں دفنایا جاتا تھا، جب نوحہ خواں/ غم خوار یعنی جنازے میں آنے والے لوگ کسی سانڈ یا بیل کو ذبح کرکے نہیں کھا جاتے تھے۔ جن غریب گھرانوں میں بیل یا سانڈ وغیرہ نہیں ہوتے، وہ کسی سے سود/ سلم پہ ادھار لیتے، مگر جانور کو ذبح کرکے کھانا دینا ضروری تھا۔ اس کے بعد سات شامیں اور سات جمعے ہوتے تھے اور آخری جمعے کو دُوبیشم/ چالیسواں ہوتا تھا۔ ان سب پر بے پناہ اخراجات آتے تھے اور کئی لوگوں کی کھیت اور زمینیں ان کی وجہ سے سود/سلم میں چلی گئیں۔
رسوم بدلتی رہتی ہیں۔ کسی ایک کلچر کے اندر بھی رسوم بدلتی رہتی ہیں۔ مثلاً: جب میت کو دفنانے سے پہلے جانور ذبح کیا جاتا، تو اُس وقت یہ عمل اُس وقت کی مذہبی تفہیم کے عین مطابق بھی تھا…… مگر بعد میں مذہب کی دوسری تفہیم نے اُس کو بدل ڈالا اور اُس کو بھی مذہب کے عین مطابق کہا جانے لگا۔ اگرچہ اس تبدیلی میں کئی کشیدگیاں بھی ہوئیں۔ اب کوئی خاندان میت کو دفنانے سے پہلے کوئی بیل وغیرہ ذبح کرکے نہیں دیتا، تاہم کئی لوگوں میں چھوٹے پیمانے پر سات شاموں کو خیراتی کھانا دینا اور سات شُوگار (جمعہ) کرنے کا رواج موجود ہے۔ غور کیا جائے، تو بیل ذبح کرنے والی رسم کی جگہ غم کی کمیٹی نے لی ہے۔ محلے کے لوگ کمیٹی بناتے ہیں اور سب مل کر اس بندے کا یہ بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اس کمیٹی کا جواز یہ دیا گیا کہ غم میں شریک خواتین و حضرات کے لیے تین دنوں تک کھانا مہیا ہو، لیکن کمیٹی کا یہ کھانا اب ایک ایسی رسم بن چکا ہے کہ جس سے محلے اور دور سے آنے والے سبھی لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ اب تو کئی جگہوں پر تیسرے کی اجتماعی دعا بھی ایک رسم بنتی جارہی ہے۔ مَیں کوئی ججمنٹ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ کیوں کہ علمائے کرام جانتے ہیں کہ کون سی رسوم شرعی ہوتی ہیں اور کون سے نہیں……! مَیں تو سماجیات اور بشریات کے ایک طالب علم کی نظر سے دیکھ کر نشان دہی ہی کرسکتا ہوں۔
رسوم ایک کلچر سے دوسرے کلچر میں در آتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ دنیا میں کوئی خالص ثقافت/ کلچر بھی وجود رکھتا ہے۔ مختلف کلچرز ایک دوسرے سے مل کر آمیزش کرتے ہیں۔ ان رسوم کی اس طرح ایک کلچر سے دوسرے میں سفر کے ذرائع کئی ہوسکتے ہیں، جن میں سکول، مدرسے، یونیورسٹی، میڈیا اور نقلِ مکانی اور ہجرت سرِ فہرست ہیں۔ ہمارے ہاں چند سال پہلے تک سال گرہ منانے کی رسم نہیں تھی۔ اب یہ رسم کافی جڑ پکڑ چکی ہے۔ اسی طرح پہلے یہاں یہ مہندی وغیرہ کی رسم نہیں تھی اور اب یہ دیہات تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح یہاں عقیقہ کی اس طرح کی رسم نہیں تھی۔ عام طور پر ایسے موقع پر محلے کو کھانا دیا جاتا اور جو ایسا نہیں کرسکتا، کوئی گلہ یا شرم نہیں تھی۔ اب یہ رسم کافی مہنگی ہوگئی ہے اور بات دو دنبوں تک پہنچ چکی ہے۔
رسوم عموماً طاقت ور کلچر سے کم زور کلچر پر آسانی سے چھا جاتی ہیں۔ کئی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ بولی ووڈ کی فلموں کے زیرِ اثر چند لوگ اُن رسوم کو بھی اپنا رہے ہیں جو اُن فلموں میں دِکھائے جارہے ہیں۔ اسی طرح دو دُنبہ والی رسم ہمارے قرب و جوار سے آئی ہے۔
یہ رسوم انسان کی جذباتی اور سماجی و معاشی رتبے کی نمایش ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک مقامی رسم کو ختم کیا جائے، تو اس کی جگہ کسی اور رسم کو لوگ اپنالیتے ہیں اور وہ عموماً غیر کلچر سے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں خواتین و حضرات شادی بیاہ کے موقع پر گھر میں کُراٹ یا بھیدین اور ستار وغیرہ بجاکر مقامی زبانوں کے گیت گاتے تھے ۔ اس عمل کو دباؤ میں رکھا گیا اور آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا…… مگر لوگ اب مقامی کی جگہ باہر کی موسیقی اور رقص لے آئے۔ ’’ڈیک‘‘ اور ’’ڈی جے‘‘ لگا کر اپنی خوشی منانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مقامی طور پر جب خلا پیدا کیا گیا، تو لوگوں نے اس طرح اس خلا کو پُر کیا۔ لوگ ہمیشہ متبادل ڈھونڈتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے آخر میں یہاں بحرین ہی سے چند لوگوں نے علمائے کرام کو آگے کرکے جہیز کے سامان کے خلاف مہم چلانے کی ٹھانی۔ اُنھوں نے یہ غلط اندازہ لگایا کہ اس سامان کا تعلق صرف نمایش اور دکھاوے سے ہے جس کا موقع بارات/ جین کی صورت میں ڈولی کے ساتھ جاکر مل جاتا ہے۔ لہٰذا ڈولی کو ٹارگٹ کرکے اس کو ختم کیا گیا۔ وقت کے ساتھ کیا ہوا کہ ڈولی چلی گئی مگر جہیز کا سامان کم ہوا اور نہ اور اخراجات…… بلکہ جین/بارات ختم ہونے کی وجہ سے شادی کے وقت محنت دوگنی ہوگئی۔ سامان لے جانا اور پھر دلہن کو لانا…… یوں اخراجات بھی بڑھ گئے۔ ان دونوں موقعوں پر کھانا دینے کے علاوہ ولیمہ کی دعوت بھی الگ دینے لگے اور کافی مہنگی دینے لگے۔ پہلے ڈولی کے ساتھ بارات اور ولیمہ سب ایک ساتھ ہوتا اور ایک ہی کھانا ہوتا۔
جدید دور نے ان رسوم کو معاشی و سماجی مقابلے میں ڈھالا ہے۔ اس جدید اور بے چین دور میں مقابلے کی دوڑ نے حیران کرکے رکھا ہے۔ اس دوڑ میں سارے اخلاقیات، اقدار اور مذہبی اصول بس کہنے کی حد تک رہ جاتے ہیں۔ کہنا بلکہ زیادہ کہنا اور حد سے زیادہ کہنا مطلب گفتار اور نمایش بھی اسی دور کا خاصا ہے۔ جو بندہ کچھ نہ کہے، اُس کا سماجی پیٹ پھول جاتا ہے اور وہ بے چین رہتا ہے۔ اس لیے گفتار اور دکھاوا بڑھ چکے ہیں جب کہ کردار اور صبر دونوں ختم ہوگئے ہیں۔ جو جتنا زیادہ دکھاوا کرسکے، وہی طرم خان، وہی مردِ مومن، وہی مسیحا بن جاتا ہے (مجھے اس گفتار پہ معاف کیجیے گا۔)
یہ رسوم اب اس سماجی، سیاسی اور معاشی مقابلے سے جڑ گئی ہیں۔ اس لیے بے چینی بھی بڑھ رہی ہے۔ جو شادی بیاہ پر جتنا دکھاوا کرسکے سمجھا جاتا ہے کہ وہی بڑا ہے، وہی معتبر ہے…… مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ جہاں لوگوں میں مقابلہ بڑھ چکا ہے، وہی پہ لوگوں میں ہم دردی گھٹ چکی ہے۔ اس بدلتے دور کی وجہ سے لوگوں کی یادداشت بھی ختم ہوگئی ہے۔ کوئی یہ یاد نہیں رکھتا کہ کس نے کس موقع پر اس سے کون سی اچھائی کی تھی…… کون کسی زمانے میں کیا تھا؟ لوگ صرف حال کے لمحات میں رہتے ہیں اور یہی شخصیت ماپنے کا ترازو بن چکا ہے۔ ساتھ مستقل کے لیے بے چینی بڑھ چکی ہے۔ کسی نے 30 لاکھ لگا کر شادی کی۔ کسی نے شادی پر 500 لاکھ خرچ کیے۔ لوگ دونوں سے ناخوش ہیں۔ فرق نہیں پڑتا۔
ایک دوست نے حالیہ مہینوں میں شادی کی۔ ہمیں بھی کھانے پر نہیں بلایا۔ فرق کچھ بھی نہیں پڑا کہ اب بھی ان کے ساتھ محفلیں جمتی ہیں۔ اسی طرح کئی لوگوں کے مہنگے ولیموں کی دعوتیں بھی اُڑائیں، مگر ایک آدھ کے علاوہ یاد بھی نہیں۔ان ذاتی مثالوں کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ ان رسومات کو سماج پر اپنے رتبہ جتانے کے لیے کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے آپ کا سماجی رعب داب بڑھے گا، تو میرے نزدیک یہ خام خیالی ہے۔ اپنی اور اپنے دوستوں کی خوشی کے لیے اگر کر رہے ہیں، تو ایسا چھوٹے پیمانے پر کسی اور طریقے سے بھی ہوسکتا ہے۔
ہمارے ہاں چند بھلے لوگ پھر متفکر ہیں کہ ان رسومات نے لوگوں کے لیے دشواریاں پیدا کی ہیں۔ ایسا ہی ہے۔ کئی رسومات اس سماجی مقابلے کا نتیجہ ہیں، جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ ان نیک لوگوں کا خیال ہے کہ ان رسومات کو ختم کیا جائے۔ اگر وقتی طور پر ختم کربھی دیے جائیں، تو لوگ کئی دیگر رسوم کو اپنائیں گے اور وہ زیادہ مہنگی ہونگیں۔ ان رسومات سے جڑے اخراجات یا ان کا کوئی معاشی متبادل ڈھونڈنا ہوگا جو کہ غیر شرعی بھی نہ ہو۔
چوں کہ شادی بیاہ سے جڑی رسوم کا بڑا تعلق خواتین سے ہے، اس لیے ان کو اس عمل میں شریک کیا جانا چاہیے۔ کم از کم کئی خواتین سے انٹرویو کرکے پوچھا جائے کہ متبادل کیا ہوسکتا ہے؟ ہمارے ہاں مرد اکثر شادی کے وقت خاتون کے لیے کچھ سامان جہیز کے نام پر بنا کر دیتے ہیں، مگر کئی صاحبِ ثروت ان خواتین کو جائیداد میں ان کا شرعی حق نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ شادی کے وقت میز کرسی دے کر اُنھوں نے یہ حق ادا کردیا۔ خواتین کے اس عین شرعی حق کی طرف ہمارے نیک لوگوں کو مسلسل دھیان دینا لازمی ہے۔
آخر میں بات سمٹتے ہوئے ایک بار پھر کلچر کا ذکر لازمی کرتا ہوں۔ کلچر کی اپنی زندگی ہوتی ہے ۔ یہ ایک تسلسل ہوتا ہے جہاں علت و معلول یعنی وجہ اور اثر کا تعلق کارفرما رہتا ہے۔ یہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا ہے اور انسانی تاریخ میں، علمِ بشریات و حیاتیات کے مطابق، گذشتہ دس لاکھ سالوں سے جاری ہے…… جہاں اس میں زبان، عقائد، اقدار، رسوم وغیرہ موجود رہی ہیں۔ کلچر کا بنیادی مقصد فطرت کے ساتھ مسلسل سرگرم رہ کر انسان اپنے لیے ایسے معاشرے ترتیب دیتا ہے، جہاں اس کی زندگی کا تحفظ ہو۔ ہمیں وہ کلچر اپنانا چاہیے، جو فطرت کے خلاف نہ ہو، جو ہمیں خوشی اور تحفظ دے اور جو ہماری زندگی کو جاری و ساری رکھے ۔
نوٹ:۔ مَیں نے یہ طویل گزارشات اس لیے کیں کہ ان موضوعات پر مکالمے کی ضرورت ہے اور مسلسل تفکر کے عمل سے گزر کر اور ہر پہلو پر نظر ڈال کر ان پر کام کرنا چاہیے۔ مزید مکالمے یا بات چیت کرنے اور اپنے طور پر اپنا حصہ ڈالنے کے لیے یہ گناہ گار مناسب وقت پر حاضر ہے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے