آہ، محشر لکھنویؔ صاحب بھی کوچ کرگئے۔
اُستاد محشر لکھنوی کا اصل نام سید محسن رضا نقوی تھا۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ لکھنو سے تعلق تھا۔ اُن کو محشر لکھنوی کے تخلص اختیار کرنے کا مشورہ آغا شورش کاشمیری نے دیا تھا۔ اُس سے پہلے شبنم لکھنوی تخلص کیا کرتے تھے۔
ابو جون رضا کی دیگر تحاریر کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/raza/
محشر لکھنوی صاحب کو مَیں نے اپنے نانا ظہیر الحسن (مرحوم) کے یہاں اکثر دیکھا تھا۔ مَیں چھوٹا تھا اور دیکھتا تھا کہ محرم کے دن ہیں۔ ایک نک سک سے تیار شلوار قمیص پہنے صاحب نانا کے کمرے میں لیٹے ہوئے اُن سے بات کررہے ہیں اور پھر بڑی پیاری رائٹنگ میں اچانک سے اُٹھ کر کاغذ پر کچھ لکھتے۔ مَیں نے ماموں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں……؟ تو اُنہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑے شاعر ہیں ۔ ان کو محشر لکھنوی کہا جاتا ہے ۔
جس سال ندیم سرور کے نوحوں کا کیسٹ مارکیٹ میں آیا اور اس میں شامل نوحہ
تمام عالم میں آج ماتم حسین بے کس کا ہورہا ہے
ہٹ ہوگیا تھا۔ مجھے یاد ہے اُس سال مَیں نے بڑے فخر سے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ یہ نوحہ جن صاحب نے لکھا ہے، وہ میرے نانا کے دوست ہیں۔ یہ انھی کا نوحہ ہے، جو اتنا مشہور ہوا ہے۔ یہ نوحہ اہلِ سنت نے بھی بہت پسند کیا تھا اور خاص طور پر یہ ’’ڈبلیو گیارہ ویگن‘‘ میں بہت بجتا تھا۔
محشر لکھنوی اور احمد نوید صاحب نے اپنی الگ شناخت بنائی تھی۔ یہ لوگ بہت کم کلام کہتے تھے، مگر جتنا بھی کہا، اُس سے اُن کی قدرتِ کلام اور زبان کی چاشنی ظاہر ہوتی تھی ۔
ریحان اعظمی صاحب (مرحوم) کو میں نے سگریٹ کی پنی کے پیچھے نوحہ لکھتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ ایک چائے کا کپ ختم ہونے سے پہلے نوحہ لکھ لیتے تھے۔
محشر صاحب نے ایک دفعہ میرے نانا سے کہا کہ جتنی دیر میں ایک شعر میں موزوں کرتا ہوں۔ اُتنی دیر میں تو ریحان کئی نوحے لکھ لیتا ہے۔
محشر صاحب بہت وضع دار آدمی تھے۔ ان کے پاس ایک ’’ویسپا‘‘ تھی۔ میرے ماموں نے مجھے بتایا کہ وہ بھی ’’علی علی اسکول‘‘ کی اونر نے ان کو لے کر دی تھی۔ انھوں نے اسکول اونر کی فرمایش پر مولا علی کی شان میں ایک سو دس اشعار پر مشتمل قصیدہ لکھا تھا، جس پر خوش ہوکر انھوں نے ویسپا خرید کر اُن کو دی،جو آخر تک اُن کے پاس رہی۔
محشر صاحب کے کہے گئے نوحوں پر نوحہ خوانوں نے بہت پیسا بنایا، مگر یہ بے چارے کیفے پیالہ کے سامنے ایک چھوٹے سے گھر میں فوت ہوگئے اور کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔
انجمن محمدی قدیم،انجمنِ تبلیغ امامیہ، انجمن ذوالفقار حیدری، انجمن ذوالفقار مرتضوی ، انجمن حیدری علی بستی تقریباً ہر مشہور انجمن نے محشر صاحب کے کلام کو اپنی نوحوں کی کیسٹوں کی زینت بنایا اور ان کو مصور غم کا خطاب دیا۔
خدا کا یہ کرم کیا مجھ پہ کم ہے
علی کا ذکر اور میرا قلم ہے
مشکل کے وقت آتا ہے خیبر شکن کا نام
ڈھارس ہے میرے قلب کی شاہِ زمن کا نام
جیسے اذان میں اکبر گُل پیرہن کا نام
محشر کے دل پہ نقش ہے یوں پنجتن کا نام
محشر صاحب کا مشہور ترین نوحہ ’’کہتی تھیں یہ ماں خوں بھری میت سے لپٹ کر، ہائے ہائے علی اکبر‘‘ آج بھی عشرہ محرم میں شہزادہ علی اکبر سے مخصوص دن یعنی 9 محرم کو پڑھا جاتا ہے۔
مجھے یقین ہوتا تھا کہ اگر مجلس سے خطاب عرفان حیدر (مرحوم) کررہے ہیں اور مجلس کے فوراً بعد برآمدگی شبیہ تابوت علی اکبر کے وقت یہ نوحہ پڑھا جائے گا، تو مجلس میں شریک کوئی نہ کوئی شخص شدتِ غم سے بے ہوش ہوکر لازمی گرے گا۔
شہزادہ علی اکبر کے حال کا نوحہ محشر صاحب کا لازوال کلام ہے۔ مجھے شاعری کی اتنی سمجھ نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ اس زمین پر بعد میں بھی نوحے لکھے گئے ہیں، مگر اس جیسا نوحہ کم ہی لکھا گیا ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت محشر صاحب اس کے کارکن بن گئے تھے۔ عام انتخابات کے آخری جلسے میں جو نشتر پارک میں منعقد ہوا تھا، محشر صاحب نے بھٹو صاحب کی کامیابی کا سہرا لکھا تھا۔
اس کے علاوہ محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی شادی کا سہرہ بھی ککری گراؤنڈ میں محشر صاحب نے پڑھا تھا۔ ملک بھر کے اخبارت میں یہ سہرہ شائع ہوا تھا اور بعد میں یہ بلاول ہاؤس میں بھی لگوایا گیا تھا۔
جمہوریت کا ملک میں جب آئے زمانہ
اے اہلِ وطن دیکھو مجھے بھول نہ جانا
پیپلز پارٹی سے تعلق ہونے کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ محشر صاحب نے ایک پلاٹ تک پارٹی سے اپنے نام پر حاصل نہیں کیا۔
محشر صاحب کے داماد سید مختار حسین بخاری ایڈ وکیٹ کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کردیا گیا تھا۔ ان کی بیوہ اس واقعے کے بعد محشر صاحب کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔
محشر صاحب کمرشل نوحہ خوانی اور اہلِ بیت کے نام پر پیسا بٹورنے والے شاعروں کے مخالف رہے جس کی وجہ سے ان کا بائیکاٹ تک کیا گیا، لیکن انھوں نے حالات کے آگے سر جھکا کر اپنی انا اور عزت کا سودا کبھی نہیں کیا۔
جاتے جاتے محشر صاحب کا کلام ملاحظہ ہو:
نا مار برچھی دل نبی پر، ابھی ہوئے ہیں جوان اکبر
یہ قتل جس کو تو کررہا ہے یہی تو ہمشکل مصطفی ہے
مدینے والوں خموش رہنا غریب زینب سے کچھ نہ کہنا
بسا ہوا گھر جو لے گئی تھی، وہ کربلا میں اجڑ گیا ہے
عزائے شبیر ہے عبادت ، جناب زینب کی ہے امانت
یہ نوحہ تیرے قلم سے محشر ، جناب زہرا کی اک عطا ہے
تمام عالم میں آج ماتم حـسین بیکس کا ہورہا ہے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔