خبر یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے شدید مخالفت اور تنقید کے بعد چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اپنے اور اپنے جیسوں کے لیے پیش کردہ ’’شہنشاہی مراعاتی بِل‘‘ واپس لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے پیش کرنے والے سینیٹرز کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ اس بِل کو واپس لے لیا جائے۔
یہ ایک خوش آیند بات ہے۔ پاکستان جیسا ملک جس کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، اشرافیہ کے ایسے چونچلوں کا ہر گز متحمل نہیں ہو سکتا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
یاد رہے کہ مذکورہ بل میں چیئرمین سینٹ کو تاحیات ایسی مراعات دینے کی سفارش کی گئی تھی، جس کا تصور ہی ہوش رُبا تھا۔
دستاویز کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے ساتھ اب اہلِ خانہ کو بھی نجی علاج کی سہولت حاصل ہوگئی تھی، جب کہ چیئرمین سینیٹ کی ذاتی رہایش گاہ کا کرایہ ایک لاکھ تین ہزار روپے سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ کر دیا گیا تھا۔
اس طرح کرائے کے مکان میں رہنے کی صورت میں وہ پانچ لاکھ روپے ماہانہ کے کرائے کے مکان میں رہ سکتے تھے۔
چیئرمین سینیٹ بیرونِ ملک سفر میں خاندان کا ایک رکن ساتھ لے جا سکتے تھے، جب کہ چیئرمین سرکاری جہاز میں بھی خاندان کے 4 افراد کو ساتھ لے جا سکتے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ چیئرمین سینیٹ کے اہلِ خانہ بھی سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے کے حق دار قرار دے دیے گئے تھے۔
مراعات میں اضافے کے بعد چیئرمین سینیٹ 12 اہل کاروں پر مشتمل ذاتی عملہ بھی رکھ سکتے تھے۔
اس کے علاوہ تاحیات چھے سیکورٹی گارڈز رکھنے کی سہولت بھی انھیں دی گئی تھی۔ چیئرمین سینیٹ کے مکان کی تذئین و آرایش پر 50 لاکھ تک خرچ کیے جا سکتے تھے، جب کہ چیئرمین سینیٹ کو 18 لاکھ روپے تک فنڈ استعمال کرنے کا صواب دیدی اختیار دیا گیا تھا۔
قارئین! نئے قانون کے تحت تمام سابق چیئرمین سینیٹ کو تاحیات اضافی مراعات ملنی تھیں، جب کہ تین برس تک چیئرمین رہنے والے سینیٹرز بھی اضافی مراعات کے حق دار ٹھہرائے گئے تھے۔
یاد رہے کہ چیئرمین سینٹ کے عہدے کی مدت چھے سال ہے۔
تمام سابق چیئرمینوں کو بھی اب سیکورٹی کے لیے درجنوں اہل کار ملنے تھے اور بیرونِ ملک سفر میں چیئرمین سینیٹ نائب صدر کے سرکاری پروٹوکول کے حق دار ہو گئے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ ملکِ عزیز میں نائب صدر کا عہدہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ اندرونِ ملک سفر کے دوران میں ’’اسکواڈ‘‘ میں ’’رینجرز‘‘، ’’فرنٹیر کور‘‘ اور ’’فرنٹیئر کانسٹیبلری‘‘ کے 4 اہل کاروں کی منظوری بھی مذکورہ بِل میں شامل تھی۔
سینیٹ نے چیئرمین کی مراعات میں اضافے کا بِل 16 جون کو منظور کیا تھا۔ بجٹ سیشن کے بعد اِسے قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تب تک اس بِل کے سلسلے میں شدید عوامی ردِعمل سامنے آ چکا تھا، جسے حکومت برداشت نہ کرسکی اور اس بِل کی مخالفت کر دی۔
حالاں کہ سینٹ میں جب یہ بِل منظور کیا گیا تھا، تو محمود و ایاز ایک پیج پر تھے۔ صرف جماعتِ اسلامی کی طرف سے مخالفت سامنے آئی تھی۔
سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ چیئرمین سینٹ کی تاحیات مراعات کا بِل پیش کرنے والوں میں انتہائی بااُصول اور باوقار سمجھے جانے والے پیپلز پارٹی کے سینیٹر جناب رضا ربانی بھی شامل تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ خود بھی اس کے بینیفشری بن رہے تھے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی ’’مشہورِ زمانہ‘‘ اصول پسندی کے گلے پر چھری پھیر دی…… مگر ان کی آرزو بھی خاک میں مل گئی۔ بقولِ شاعر
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
جناب صادق سنجرانی اس بل کو فنانس بل کے ساتھ ہی منظور کروانا چاہتے تھے۔ گذشتہ دنوں قومی اسمبلی میں چیئرمین سینٹ کی شاہانہ مراعات سے متعلق بِل کی حکومتی وزرا نے شدید مخالفت کی، تو اس شدید ردِعمل کے بعد صادق سنجرانی کی طرف سے بِل واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
قارئین! یہاں یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اس بِل پر اپنی رائے دیتے ہوئے چیئرمین سینٹ نے فرمایا تھا کہ اس بِل کی منظوری سے قومی خزانے پر ایک پیسے کا بوجھ نہیں پڑا۔
اُن کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ یہ فرق پیسوں میں نہیں بلکہ ہر ماہ کروڑوں میں پڑنا تھا۔ گئے دنوں کے چیئرمین سینٹ نے بھی اس سے استفادہ کرنا تھا…… اور ملکی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کے اضافی بوجھ کا صرف چند شخصیات کی وجہ سے سامنا کرنا پڑتا۔
حکومتی وزرا نے بھی قومی اسمبلی میں اس بِل کی مخالفت کرکے حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے۔
اُدھر صدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عارف علوی نے جاتے جاتے ملکی خزانے کو کروڑوں کا ٹیکا لگا دیا ہے۔ موصوف اپنے اہلِ خانہ کے علاوہ خاندان کے درجنوں افراد کو ساتھ لے جا کر ’’سرکاری حج‘‘ کے ثواب سے فیض یاب ہوچکے ہیں۔ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں ہی کو دے۔
ملکی منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ’’ آئی ایم ایف‘‘ نے ناک اور گوڈے گِٹے رگڑوانے کے بعد 3 ارب ڈالر دینے کی منظوری دے دی ہے…… جس سے وقتی طور پر ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ چیئرمین سینٹ کے مراعاتی بِل کی مخالفت کی طرح اشرافیہ کے لوٹ مار مراعاتی پیکیج پر بھی نظرِثانی کی جائے۔ ’’ایم پی ایز‘‘، ’’ایم این ایز‘‘، ’’سینیٹرز‘‘ اور حکومتی وزرا کے مراعاتی پیکیجز واپس لیے جائیں۔ ان کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ باقی تنخواہ داروں کی طرح یہ اپنے بجلی، گیس، ٹیلی فون اور دوسرے یوٹیلیٹی بلوں کو خود ادا کریں۔
سنا ہے کہ لاہور تا اسلام آباد موٹر وے پر سفر کے لیے 1000 روپے کی ٹول ٹیکس کی پرچی بھی انھیں معاف کر دی گئی ہے۔ یہ اور اس قسم کی دیگر رعایتیں ختم کی جائیں۔ اس طرح بڑے سرکاری عہدوں پر براجمان حضرات کی مراعات کا بھی خاتمہ کیا جائے۔ تیس ہزار روپے تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین اگر اپنے تمام بِل اپنی آمدنی سے ادا کرتے ہیں، تو لاکھوں کی آمدنی والے کیوں نہیں دے سکتے؟
اب یہ دو قومی نظریہ ختم ہونا چاہیے۔ اس طرح ججوں اور بیوروکریسی کی مراعات کو بھی محدود کیا جانا چاہیے۔ 1000 سی سی سے بڑی گاڑی کے سرکاری استعمال پر پابندی لگائی جائے۔ قومی سوچ کو اپنا کر ہی ہم آئی ایم ایف جیسے عفریت کے چنگل سے نکل سکتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔