تأ کھید سُلیمنیک سی چھلے ھئی کیدی آرا
چپٹ پن دے یدے مھیئے چونجو نہ لشا
(ترجمہ): ’’تم نے کب سُلیمینک کی طرح چٹانوں کو چیرا ہے، اک ہم وار راستے سے آکر میرے سامنے مت اترا۔‘‘
بحرین کے نئے تھانے کے بالکل سامنے دریا کی مشرق کی جانب ایک چٹان ہے، جو دریا سے شروع ہوکر کوئی 1500 فٹ تک سیدھی اوپر جاتی ہے۔ اسی چٹان کو ’’ڈُوگُو ھئی‘‘ کہتے تھے۔ کیوں کہ یہاں دریا کے کنارے قریب اس چٹان میں ایک بڑا گڑھا سا تھا جس کی وجہ سے اس کو ’’ڈُوگُو ھئی‘‘ یعنی گہری چٹان کہتے ہیں۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
اس چٹان سے کوئی 300 میٹر جنوب کی جانب اسی پہاڑ پر ایک اور چٹان ہے جس کو ’’کڑھا ھئی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دونوں چٹانیں بحرین سے شمال مشرق کی طرف ہرا گاؤں درولئی (دیریل) کے پہاڑ میں واقع ہیں اور اسی گاؤں کے دو حصوں کو راستے انھی چٹانوں سے گزر گر جاتے ہیں۔
2010ء اور اگست 2022ء کے بعد ایک بار پھر یہاں دریا کنارے راستہ دریا کے چڑھنے کی وجہ سے بند ہوچکا ہے۔ دو راتیں پہلے جب میں رات کو کوئی 10 دن علاقے سے باہر رہنے کے بعد بازار پہنچا، تو راستہ بند تھا۔ مَیں رات کو ہی اسی ڈُوگُو چٹان کے اوپر عارضی اور پُرخطر راستے سے ہوکر آیا۔ اُس وقت مجھے اس تحریر کے آغاز میں دیا جانے والا توروالی کا شعر یاد آیا۔ اُس کے بعد روزانہ مجھے اس چٹان کو اسی اوپری بکریوں کے راستے سے آنا جانا پڑتا ہے۔
اُس رات جب گھر پہنچا، تو پتا چلا کہ گھر کی خواتین کو ایک ہفتے میں یہ راستہ دو مرتبہ بیٹے کی بیماری کی وجہ سے طے کرنا پڑا ہے۔ خود کو بہت کوسا اور اُس رات سو بھی نہ سکا۔
کل (21جون 2023ء) کو خبر ملی کہ اکبر نامی جوان اسی چٹان کی خطر ناک عمودی جگہ سے سر چکرانے کی وجہ سے نیچے پانی میں گر گیا ہے۔ وہ کچھ کم اونچائی سے گرا تھا اور پانی میں گرنے کی وجہ سے بچ گیا ہے۔ مَیں تو کہوں گا کہ اُس کا بچنا ایک معجزہ ہے، خدا کا شکر ہے۔
درولئی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 2013ء سے مسلسل ہر الیکشن میں یہاں سے پاکستان تحریکِ انصاف جیتی ہے۔ گذشتہ 9 سالوں میں اِس چٹان کے سامنے والی سڑک نہ بن سکی۔ درولئی کے لوگ خصوصاً جوان اور نوجوان بہت سیاسی ہوچکے ہیں۔ اُن کی اس سیاست اور پاکستان تحریکِ انصاف کی مقامی قیادت کی وجہ سے یہ سڑک پختہ ہوسکی نہ اس پر کوئی کام ہی ہوسکا۔
اگست 2022ء کے سیلاب کے بعد پہلے لوگوں نے یہاں اپنی مدد آپ کے تحت کام کرکے راستہ بنایا۔ گاڑیوں کے پل، جس کو لوگوں نے اپنی مدد آپ اور کچھ چندے لے کر 2010ء میں بنایا تھا، کی جگہ ڈاکٹر حیدر علی کی مدد سے سی این ڈبلیو سے بنوایا…… یعنی یہاں کے لوگوں نے گاڑیوں کا پل کھو دیا۔ 2010ء میں اے این پی کی حکومت تھی اور اُس وقت کے ایم پی اے نے کئی گاوؤں کے لیے سٹیل پل بنوانے کے لیے ایک غیر ملکی ایجنسی، (برطانوی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی) کو قائل کیا، تاہم درولئی کو یہاں پل بنوانے کا خیال اُن کو نہیں آیا۔ اُن کا خیال ہوسکتا ہے یہی تھا کہ چلو یہاں ایک ’’لکڑ والا چھوٹا پل‘‘ ہے۔ اسی لیے اس گاؤں کے حصے میں سٹیل پل نہیں آیا۔ جب خود مَیں نے اُس برطانوی ادارے سے دوسرے مرحلے میں یہاں پل بنوانے کے لیے رابطہ کیا، تو اُن کا منصوبہ ختم ہوچکا تھا۔
2013ء میں بھی یہاں کا ایم پی اے عوامی نیشنل پارٹی سے تھا اور صوبے میں حکومت پی ٹی آئی کی تھی۔ اس لیے گلہ تک نہیں کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے کوئی پروپوزل دیا ہے۔
2018ء میں تبدیلی سرکاری کا اپنا ایم پی اے آگیا، تو اس درولئی سڑک پر بات شروع ہوگئی۔ لوگوں کو کہا گیا کہ یہاں 5 کلومیٹر سڑک سیاحت کے کسی منصوبے میں ڈالی ہے۔ پھر پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہاں کی سڑک کو درولئی کا ایک شخص بننے نہیں دے رہا۔ اُس شخص سے اُن کی مراد ’’راقم الحروف‘‘ تھا۔ کئی مہینے سخت کوفت میں گزارے۔ کیوں کہ اپنے گاؤں کے عام لوگوں نے اس پر یقین کرلیا تھا۔ اس کے بعد ہر چھوٹے بڑے کو صفائی دیتا رہا۔ جب متعلقہ ایم پی اے سے بات کی، تو انھوں نے بھی کچھ مبہم ڈائریکٹرز کے نام دیے۔ اصل میں بات یہ تھی کہ اُس ایم پی اے کے ایک کرونی، جس کا تعلق درولئی گاؤں سے نہیں، نے کسی سٹامپ پیپر پر لکھا کہ یہ سڑک بحرین تا گورنئی براستہ درولئی جائے گی اور ہمارے گاؤں کے اُن دل پھینک نوجوانوں نے اُس کو اسی صورت میں پڑھے بغیر بڑوں کے سامنے رکھا جس پر ظاہر ہے کہ تحفظات پیدا ہوگئے۔ خیر، سڑک کی مخالفت پھر بھی کسی نے نہیں کی۔ سب نے کہا کہ وہ اس مبینہ 5 کلومیٹر سڑک کو درولئی کے اندر ہی پورا کردیں گے۔ پر جس شخص نے جس مقصد کے تحت یہ کام کیا تھا، اُس کا وہ مقصد پورا ہوگیا اور ہمارے یہ تبدیلی والے نوجوان بس ایک دوسرے کو گریبانوں سے پکڑتے رہے۔
اگست 2022ء کے سیلاب کے بعد اس چٹان سے درولئی پل تک پہلے لوگوں نے خود ایک راستہ بنایا۔ اُس کے بعد مسلم لیگ کے امیر مقام صاحب کے تعاون سے بواسطہ جہانگیر ایک ایکسکیویٹر فراہم کیا گیا جس نے کئی دنوں تک یہاں کام کرکے اس چٹان سے موجودہ پل تک سڑک گاڑیوں کے لیے درست کردی۔ بدقسمتی سے اُسی چٹان کے سامنے دریا کے کنارے اس سڑک کو اتنا نہیں بھردیا کہ دریا اس پر نہ چڑھ سکے۔ اُس سڑک اور پل سے پہلے کئی لوگ اُس ’’زانگو‘‘ نامی کٹھولے سے گر کر زخمی ہوئے تھے۔
پی ٹی ائی نے آخرِکار ایک آر سی سی پل منظور کروایا۔ اُس پر سیلاب اُس سال کے اوائل میں کچھ کام شروع ہوا، پھر اچانک بند کردیا گیا۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ صوبے کی نگراں حکومت نے وہ رقم نہیں دی۔ اس لیے درولئی اور آئین کے پلوں پر کام بند ہوگیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سب کام بند ہوگئے ہیں، تاہم ایک ایسے ہی پل پر مدین کے مشرق میں مدین کے قریب چیل درے میں باڈلئی نامی گاؤں کے پل پر کام نہیں رُکا۔ پتا نہیں کیوں…… کسی ٹھیکیدار کی پھرتی ہے یا کسی کی ہمارے ساتھ شرارت……!
خدا کا شکر ہے کہ اکبر شرافت الدین بچ گیا۔ خدا ایسے واقعات سے درولئی گاؤں کے لوگوں کو بچائے کہ ہم ’’سُلیمینک‘‘ نہیں کہ چٹانوں کو چیر سکیں اور سر اُٹھا کر اتراتے پھریں۔ ہمارے اس گاؤں کے پی ٹی آئی سے منسلک ’’سُلیمینکوں‘‘ نے ہمارے سر بہت اونچے کیے ہیں۔ ہمارے لیے بس اتنا فخر کافی ہے ! ہم سادہ لوح دل پھینک لوگ ہیں جو جلدی باتوں میں آجاتے ہیں۔ مرد تو ایسے تیسے ان راستوں سے گزرتے ہیں بس فکر خواتین، بچوں اور بزرگ شہریوں کی ہے کہ ان کے لیے یہ راستے پل صراط سے کم نہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔