جب معلوم و نامعلوم قوتوں کی جانب سے حالیہ اہلِ سوات کی نبض ’’سہ بارہ‘‘ چیک کی جا رہی تھی، تو مٹہ میں ایک سیاہ پوش شخص جو میانہ قد تھا، جس کے بال بھونسلے، داڑھی صاف، موچھ گھنی اور آواز گرج دار ہونے کے ساتھ ساتھ پُراعتماد بھی تھی۔ وہ تیور بدل بدل کر اور شہادت کی اُنگلی اُٹھا اُٹھا کر مذکورہ قوتوں کو چیلنج کر رہا تھا۔ اُس کا نپا تلا انداز اور مدلل خطاب مجھے بھا گیا۔ پاس ہی کھڑے تحصیلِ مٹہ کے ایک دوست سے پوچھا، کون ہیں یہ حضرت؟ دوست جواباً بولا، ’’تم اِنھیں نہیں جانتے…… یہ بہادر شیر افغان ہیں۔‘‘ اُس روز کے بعد اُنھیں کئی مواقع پر سنا اور ہر بار سر دھنتا رہ گیا۔
کامریڈ امجد علی سحابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
٭ بہادر شیر افغان کون ہیں؟
بہادر شیر افغان برسوات کے کوزہ درشخیلہ کے مساوات خان المعروف ’’تاتان صیب‘‘ کے ہاں سنہ 1965ء میں پیدا ہوئے۔ یوسف زئی پشتونوں کی پائندہ خیل شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے 30، 35 سالوں سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے نظریاتی کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ مَیں انھیں دہشت گردی کی تازہ لہر میں کئی بار احتجاجی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے سن چکا ہوں۔ وہ لگی لپٹی بغیر جو من میں آئے کہے دیتے ہیں۔ وہ ہماری پہاڑی کہاوت ’’شف، شف نہ کہیں، سیدھا شفتالو کہیں‘‘ کے مصداق زندگی گزارنے والوں میں سے ہیں۔
بہادر شیر افغان پر خود اُن کا بھتیجا کامریڈ خالد اقبال اور کوزہ اور برہ درشخیلہ کے لوگ گواہی دیتے ہیں کہ یہ مردِ میدان 2007 ء اور 2008ء کے دوران میں جب یہاں آگ و خون کا کھیل جاری تھا، اُس وقت بھی آج کی طرح فعال تھا۔ گاؤں میں امن بحال رکھنے اور دہشت گردوں کا راستہ روکنے کی خاطر انھوں نے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی…… مگر جن دہشت گردوں کے سامنے ایک ایٹمی قوت ریت کی دیوار ثابت ہو، اُن کے آگے بہادر شیر افغان جیسے نہتے لوگ کیسے ٹکتے۔ پھر جب یہاں دہشت گرد مکمل طور پر مضبوط ہوئے (یا کرائے گئے)، تو اہلِ علاقہ باقاعدہ طور پر معافیاں مانگنے لگے۔
بہادر شیر افغان کے بھتیجے کامریڈ خالد اقبال کے بقول: ’’افغان اُن چند گنے چنے افراد میں سے تھا، جو علاقہ تو چھوڑ بیٹھا، مگر اُن عناصر کے آگے ناک نہیں رگڑی۔ وہ پُرآشوب دور انھوں نے سعودی عرب کی خاک چھاننے میں گزارا۔‘‘
یہ درویش صفت بہادر شیر افغان کوئی للو پنجو نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں۔ انھوں نے پشتو ادب میں ایم اے کیا ہے، جس کا رنگ ان کے خطاب میں نمایاں طور پر دکھتا ہے۔ کالج کے دور میں فعال ترین سیاسی طلبہ میں سرفہرست گردانے جاتے تھے۔ اب جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر اپنی زمین پر ہل چلاتے ہیں اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔
٭ بہادر شیر افغان کو کیوں پکڑا گیا؟
گذشتہ دنوں گوالیرئی چوک میں ایک احتجاجی مظاہرہ اس وجہ سے کیا گیا کہ وہاں ایک معصوم بچے کو چند نقاب پوشوں نے پکڑ کر تیز دھار آلے کے پے در پے وار سے زخمی کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’پولیس انوسٹی گیشن‘‘ کے بعد بچے کو ’’ایپی لیپسی‘‘ کا مریض دکھایا گیا، حالاں کہ ایک ماہر معالج کی اس پر ہنسی چھوٹی تھی کہ ایپی لیپسی کا مریض کیسے تیز دھار آلہ ہاتھ میں لے کر بڑے اہتمام سے اپنے وجود پر کئی کٹ لگا سکتا ہے۔ معالج کے بقول، مرگی کا مریض تو مکمل طور پر ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، اُسے اپنے گرد و پیش کا سرے سے علم نہیں ہوتا۔
آمدم برسرِ مطلب، گوالیرئی چوک میں ریکارڈ ہونے والے احتجاج میں بہادر شیر افغان نے ریاست، اس کے اداروں اور محکموں کی ’’شان دار‘‘ کارکردگی پر چند سوالات اٹھائے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے۔ بہادر شیر افغان اِس ریاست کے وہ بدقسمت شہری ہیں، جنھیں اپنے حقوق کا پتا ہے، جو یہ جانتے ہیں کہ اُن کے دودھ پیتے بچے سے لے کر اُن کے والدِ بزرگوار تک پورا خاندان مختلف مدوں میں اچھا خاصا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اُس ٹیکس سے دفاع، تحفظ، صحت، تعلیم اور پتا نہیں اور کتنے حیلوں بہانوں سے موٹی موٹی تنخواہیں ڈکاری جاتی ہیں۔ بڑے بڑے ’’یخ‘‘ دفاتر اور کنالوں پر مشتمل دولت کدوں کے مزے لوٹے جاتے ہیں۔ کالے شیشے چڑھا کر، آنکھوں کو خیرہ کرنے والا ایک بڑا لال اور نیلی روشنی والا قمقمہ روشن کرکے اور سماعت خراش سائرن بجا بجا کر ہم ’’بلڈی سویلینز‘‘ کا منھ چڑایا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بہادر شیر افغان جیسا سر پھرا ’’کارکردگی‘‘ کے بارے میں پوچھتا ہے، تو پھر اُسے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اب محترم ڈی پی او کو کیسے سمجھایا جائے کہ بہادر شیر افغان، علی وزیر جیسے نظریاتی سیاسی کارکن ہے، اُن کا کسی برگر فیملی سے تعلق نہیں کہ آپ حضرات اُن پر مقدمہ کرکے اُن سے ناک رگڑوالیں گے۔ 2007ء کا دور اور وہ خونی کھیل بہادر شیر افغان کو رام نہ کرسکا، تو حوالات یا پھر جیل کی سلاخیں اس مردِ میدان کا کیا بگاڑ لیں گی۔
جاتے جاتے یہ چند اشعار بہادر شیر افغان کے نام کہ آنے والا دور اس سے بھی کٹھن ہے اور نظریاتی کارکنوں کے لیے ایک بڑے امتحاں سے کم نہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اسے اٹھالو
اٹھانے والوں سے کچھ جدا ہے اسے اٹھالو
وہ بے ادب، اس سے پہلے جن کو اٹھا لیا تھا
یہ ان کے بارے میں پوچھتا ہے اسے اٹھالو
اسے بتایا بھی تھا کہ کیا بولنا ہے ، کیا نئیں
مگر یہ مرضی سے بولتا ہے اسے اٹھالو
جنہیں اٹھانے پہ ہم نے بخشے مقام و خلعت
یہ ان سیانوں پہ ہنس رہا ہے اسے اٹھالو
یہ پوچھتا ہے کہ امنِ عامہ کا مسئلہ کیوں
یہ امنِ عامہ کا مسئلہ ہے اسے اٹھالو
اسے کہا تھا جو ہم دکھائیں، بس اتنا دیکھو
مگر یہ مرضی سے دیکھتا ہے اسے اٹھالو
سوال کرتا ہے یہ دیوانہ ہماری حد پر
یہ اپنی حد سے گزر گیا ہے اسے اٹھالو
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔