نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں حکم ران، سیاسی مخالفین جو اُنھیں ہرانے کی سیاسی قوت رکھتے ہوں، کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ چاہے ریاست کو اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے، اُن کی بلا سے۔
پاکستان میں سیاست کا گورکھ دھندا سات عشروں سے جاری ہے۔ پاکستان کی قابلِ ذکر سیاسی پارٹیاں پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی کے سربراہوں کو بھی ان جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن کسی نے اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
پاکستان فنگشنل مسلم لیگ کے سربراہ ایوب خان نے جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی اور امیرِ جماعت اسلامی مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی۔
پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں نیشنل پارٹی کی حکومت ختم کی، تو جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ اور وزیرِ اعلا مفتی محمود نے احتجاجاً صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کی حکومت کو تحلیل کر دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف 9 سیاسی پارٹیوں نے قومی اتحاد کے نام سے سیاسی اتحاد تشکیل دیا، جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی اور ملک میں 11 سال تک مارشل لا کا دور رہا۔
بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے مخالف سیاسی پارٹیوں نے ’’خلائی مخلوق‘‘ کے کہنے پر سیاسی اتحاد ’’آئی جے آئی‘‘ تشکیل دیا۔ آئی جے آئی میں شامل سیاسی پارٹیاں مل کر پیپلز پارٹی کو روکنے میں کامیاب ہوئیں، مگر اس کی ریاست اور عوام کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
آج بھی تحریکِ انصاف کے خلاف 12، 13 سیاسی پارٹیوں نے مل کر سیاسی اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘ تشکیل دیا ہے۔ پی ڈی ایم پونے چار سال کے جلسے جلوسوں کی مدد سے پاکستان تحریکِ انصاف کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوا۔ اس اتحاد کو اب بھی ڈر ہے کہ قومی الیکشن میں تحریکِ انصاف کو شکست دینا ممکن نہیں۔ اس لیے اتحادی حکومت آئین شکنی پر اُتر آئی ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کرانے سے گریزاں ہے، بلکہ ہٹ دھرمی پر اُتر آئی ہے۔ اگر اکتوبر تک عمران خان نااہل یا گرفتار نہ ہوئے، تو بھی وقت پر الیکشن نہیں ہوں گے۔
برسرِ اقتدار ٹولہ تحریکِ انصاف کو توڑنے اور عمران خان کو اکیلا کرنے کے لیے تحریکِ انصاف کے مرکزی اور صوبائی رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ اگر عدالت اُن کی ضمانت منظور کرتی بھی ہے، تو جیل سے باہر آنے کے بعد پولیس اُنھیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کرلیتی ہے۔ اسی طرح دباو ڈال کر اُنھیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مزید دباو بڑھانے کے لیے 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد پر آرمی کی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب تک ڈاکٹر شیرین مزاری، ملکہ بخاری، ملک قاسم، جمشید اقبال چیمہ، مسرت جمشید چیمہ، نادیہ شیر خان، جلیل شرق پوری، افتخار گیلانی، فیض اللہ کموکا، پیر سعید الحسن شاہ، عبدلرزاق خان نیازی، فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان، حسین الٰہی، حیدر علی، سیف اللہ نیازی، ابرارالحق، علی زیدی، خسرو بختیار اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سمیت تقریباً 50، 55 رہنما ’’تحریکِ انصاف‘‘ چھوڑ چکے ہیں، جب کہ اسد عمر نے صرف پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔
ان حالات کے بارے میں معروف صحافی حامیر نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا: ’’شیرین مزاری کا سیاست چھوڑنے کا اعلان کسی کی فتح نہیں بلکہ پاکستان میں جو بھی جمہوریت اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرتا ہے، اُس کی شکست یقینی ہے۔‘‘
بول ٹی وی کے پروگرام ’’آج کی تازہ خبر‘‘ میں حامد میر نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’کسی زمانے میں پی پی پی اور مسلم لیگ کو بھی لوگ چھوڑ رہے تھے اور آج پاکستان تحریکِ انصاف کو چھوڑ رہے ہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر حکومت، تحریکِ انصاف پر پابندی لگانا چاہے بھی، تو آخری فیصلہ سپریم کورٹ نہ کرنا ہے۔ اس لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ حکومت کا پورا کھیل فیل ہوگیا ہے۔‘‘
اینکر شاہ زیب خان زادہ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی جمہوریت کے لیے کافی شرمندگی کا دن ہے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ کسی کو جیل میں ڈال کر اُس کو مجبور کریں کہ وہ پارٹی چھوڑ دے۔‘‘
ان حالات کے بارے میں مردان کے جماعتِ اسلامی کے امیر غلام رسول فرماتے ہیں: ’’فوجی عدالتوں کا فیصلہ سیمی مارشل لا کا اعلان ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو پی ٹی آئی دشمنی میں ملٹری کورٹس کی حمایت زیب نہیں دیتی۔‘‘
سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے ریماکس دیے کہ وہ تو آپ کو نہیں چھوڑیں گے، جب کہ جسٹس ارباب طاہر کے ریماکس ہیں کہ ایک پریس کانفرنس کرکے معاملہ ختم کریں۔
ان حالات پر اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے برائے انسانی حقوق کے سربراہ وولکرترک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں 9 مئی کو پیش آنے والے توڑ پھوڑ کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے پر حکومتِ پاکستان کی مذمت کی اور حکومت کے اس فیصلے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دے دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے موجودہ حالات میرے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان میں ان دنوں قانون کی حکم رانی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ واقعات کے بعد بڑے پیمانے پر سیاسی کارکنوں اور شہریوں کی گرفتاری پریشان کن اور غیر منصفانہ ہے۔
9 مئی کو جو کچھ ہوا، قابلِ مذمت ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں، اُس دن جس کسی نے بھی سرکاری و نجی اِملاک کو نقصان پہنچایا اُنھیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، لیکن حکومت جس طریقے سے سیاسی افراد کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے، وہ بھی قابلِ ستایش نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی مجرم کے پارٹی چھوڑنے کے عمل سے آئین و قانون شکنی اور ریاست کو پہنچنے والے نقصان کا مداوا ممکن ہے؟
حکومت کے ان اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ حکومت اس پر بھی غور کر رہی ہے کہ تحریکِ انصاف کو آنے والے قومی الیکشن سے باہر کرنے کے لیے پابندی عائد کرے، جو کہ غیر جمہوری طرزِ عمل ہے۔ اس سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی، جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم پر پابندیاں لگ چکی ہیں، لیکن وہ آج بھی سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ اس لیے تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مل بیٹھ کر ملک میں سیاسی اور معاشی عدمِ استحکام کے خاتمے کے لیے مذاکرات اور عملی اقدامات کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔