عموماً ’’جماہی‘‘ (ہندی، اسمِ مونث) کو ’’جمائی‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ تلفظ‘‘ کے مطابق ’’جماہی‘‘ دُرست اِملا ہے جب کہ اس کے معنی ’’انگڑائی‘‘ اور ’’جسم میں ذرا تناو آکر منھ کھل جانا‘‘ کے ہیں۔
کامریڈ امجد علی سحابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے مطابق ’’جماہی‘‘ کے ساتھ ’’جمہائی‘‘ بھی دُرست ہے۔
’’نور اللغات‘‘ کے مطابق ’’جماہی‘‘ اور ’’جمھائی‘‘ دونوں مستعمل ہیں، لیکن محاورات جیسے ’’جماہی آنا‘‘ اور ’’جماہی لینا‘‘ میں ’’جمھائی‘‘ کی جگہ ’’جماہی‘‘ درج ملتا ہے۔
’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ میں دونوں طرح کا اِملا (جماہی/ جمائی) درج ہے، مگر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ آگے جاکر مذکورہ لغت میں درج محاورات میں اِملا ’’جمائی‘‘ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ محاورات ملاحظہ ہوں: ’’جماہی آنا‘‘ اور ’’جماہی لینا‘‘۔
’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ کے مطابق بھی ’’جماہی‘‘ اور ’’جمائی‘‘ دونوں طرح کا اِملا دُرست ہے، مگر آگے ایک محاورہ یوں ہاتھ آتا ہے: ’’جماہی آنا۔‘‘
’’جامع اُردو لغت‘‘، ’’حسن اللغات‘‘، ’’اظہر اللغات‘‘ اور ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ کے مطابق ’’جماہی‘‘ اور ’’جمائی‘‘ دونوں طرح کا اِملا دُرست ہے۔
سب سے مستند حوالہ رشید حسن خان کی کتاب ’’انشا اور تلفظ‘‘، مطبوعہ ’’الفتح پبلی کیشنز‘‘، طبعِ دوم 2014ء، صفحہ نمبر 75 پر ہاتھ آتا ہے، جہاں مذکورہ لفظ کا اِملا صرف ’’جماہی‘‘ درج ہے۔
اس طرح صاحبِ نور نے حضرتِ ذوقؔ کا ذیل میں دیا جانے والا شعر درج کرکے گویا ’’جماہی‘‘ پر مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ
نام میرا سن کے مجنوں کو جماہی آگئی
بیدِ مجنوں دیکھ کر انگڑائیاں لینے لگا