گھنٹا (ہندی، اسمِ مذکر) کا اِملا عموماً گھنٹہ لکھا جاتا ہے۔
مذکورہ لفظ کے اِملا کے حوالے سے لغات کی آرا ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مثلاً: فرہنگِ آصفیہ کے مطابق صحیح اِملا ’’گھنٹا‘‘ ہے، مگر ’’گھنٹہ‘‘ بھی ساتھ رقم ملتا ہے۔ آگے جاکر صاحبِ آصفیہ نے محاورات میں ’’گھنٹا‘‘ درج کیا ہے نہ کہ ’’گھنٹہ‘‘۔ محاورات یوں ہیں: ’’گھنٹا بجانا‘‘ اور ’’گھنٹا ہلانا‘‘۔
اس طرح صاحبِ آصفیہ نے آگے جاکر ’’گھنٹہ گھر‘‘ نہیں بلکہ ’’گھنٹا گھر‘‘ لکھا ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ انھوں نے ’’گھنٹا‘‘ کو ترجیح دی ہے۔
کچھ اس طرح کا کام ’’حسن اللغات (جامع)‘‘ کے مولف نے بھی کیا ہے۔ لغت میں دونوں طرح کا اِملا (’’گھنٹا‘‘ اور ’’گھنٹہ‘‘) درج ملتا ہے، مگر لفظ کے ذیل میں دیے گئے محاورات میں ’’گھنٹہ‘‘ کی جگہ ’’گھنٹا‘‘ درج ہے۔ مثلاً: ’’گھنٹا بجانا‘‘، ’’گھنٹا ہلانا‘‘۔ نیز ’’گھنٹہ گھر‘‘ کی جگہ ’’گھنٹا گھر‘‘ درج ملتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولف نے ’’گھنٹا‘‘ لکھنے کو ترجیح دی ہے۔
’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’گھنٹا‘‘ ہے۔ لفظ کے ذیل میں ’’گھنٹا گھر‘‘ بھی درج ملتا ہے۔
’’اظہر اللغات (جامع)‘‘ میں بھی ’’گھنٹا‘‘ ہی درج ہے اور ’’گھنٹہ گھر‘‘ کی جگہ ’’گھنٹا گھر‘‘ لکھا ہوا ملتا ہے۔
’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘ میں دونوں طرح کا اِملا لکھا ہوا نظر آتا ہے مگر لفظ کے ذیل میں ایک جملہ یوں درج ہے: ’’چپڑاسی نے گھنٹا بجایا۔‘‘ جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ مولف نے ’’گھنٹا‘‘ لکھنے کو ترجیح دی ہے۔
دیگر لغات جیسے ’’نور اللغات‘‘، ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ اور ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ میں دونوں طرح کا اِملا درج ملتا ہے۔
ہمیں اُردو اِملا پر سند کی حیثیت رکھنے والے رشید حسن خان کا ایک وضع کردہ اُصول ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندی کے وہ تمام الفاظ جن کے آخر میں ہائے ہوز کا استعمال ہو، کا اِملا غلط تصور ہوگا۔ جیسے دھوکہ، سرھانہ وغیرہ (یعنی ان الفاظ کو ’’دھوکا‘‘ اور ’’سرھانا‘‘ لکھنا چاہیے)۔
’’گھنٹا‘‘ کے معنی ’’گھڑیال‘‘، ’’جرس‘‘، ’’گلے میں لٹکانے کی ٹالی جو اکثر بیل یا اُونٹ وغیرہ کے گلے مین ڈال دیتے ہیں‘‘، ’’وقت بتانے کا بڑا آلہ‘‘، ’’ٹائم پیس‘‘، ’’ساٹھ منٹ یا ڈھائی گھڑی کا وقت‘‘ وغیرہ کے ہیں۔