جاب کو بوریت کا سامان سمجھنے والوں کے نام

عام نوکری کرنے والوں سے لے کر خاص اور بااثر نوکری کرنے والوں تک سے مجھے جو بات سب سے زیادہ سننے میں آئی، وہ کام سے منسلک بوریت کے احساسات ہیں۔ جہاں روز اُٹھو، وہی روزمرہ کے کام، وہی نوکری، وہی گھسی پٹی زندگی……!
میڈیا بھی اس قسم کی فلمیں دکھا کر ہمیں بتاتاہے کہ کیسے ایک عام اور روزمرہ کی زندگی دُکھی اور ناکارہ زندگی ہے۔ ہمیں کچھ بہت ہی عظیم، جوش سے بھرپور، ولولہ انگیز اور دلچسپ کرنے کی ضرورت ہے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
زیادہ تر سرکاری نوکری کرنے والوں کے لیے نوکری میں تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کا نہ ہونا، بنائے ہوئے نظام کا پہیا چلانا اور کسی کام کو انجام/ تکمیل تک پہنچانے کے احساس سے محروم یہ نوکریاں انسان کو نفسیاتی اذیت دیتی ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں ٹھوکے جانے والے سلام اور بظاہر ملنے والی محدود باہری طاقت کا ’’چارم‘‘ ختم ہوجاتا ہے…… جب حقیقت سولہ سنگار کرکے اپنا روپ دکھاتی ہے۔
ایسی ہی ایک خاتون جن کا نام سے ’’شوناگَن‘‘ (Sei Shonagon) تھا، جو جاپان کے ’’ہیان‘‘ (Heian Period) حکومت کی مدت کے دوران میں ایک ’’کورٹ لیڈی‘‘ (Court Lady) کے عہدے پر فائز تھیں۔ ان کا کام شاہی گھرانے اور اعلا عہدوں پر فائز معزز خواتین کا استقبال کرنا اور اُن کو دیے جانے والے القابات کو یاد رکھنا تھا۔ یہ ایک بہت ہی معزز اور معتبر عہدہ تھا۔ امریکہ کے سابق صدر ’’باراک اوباما‘‘ (Barack Obama) اپنی کتاب ’’دا پرومسڈ لینڈ‘‘ (The Promised Land) میں کہتے ہیں کہ لوگوں کی بہت امیدیں وابستہ ہوتی ہیں جب وہ آپ کو صدر منتخب کرتے ہیں، لیکن آخر کو صدر ہونا ایک نوکری ہی ہے، جس کی اپنی حدود ہیں۔
شوناگن کے لیے بھی یہ معزز جاب بہت اُکتا دینے والی بوریت کا سامان تھی، جہاں لوگوں کا استقبال کرنا اور خاموشی سے آس پاس ہونے والے معاملات کو صرف دیکھنا…… جی ہاں دیکھنا تھا، لیکن شوناگن نے اپنی اس بوریت سے بھری نوکری سے نمٹنے کے لیے دیکھنے کو مشاہدے میں بدلا۔ اسی مشاہدے نے انھیں لکھنے پر مجبور کیا۔
شوناگن چوں کہ ایک اچھے عہدے پر فائز تھی اور محل میں کاغذ حاصل کرنا اتنا مشکل نہ تھا۔ ہیان حکومت جاپان میں بہت پُرامن حکومت تھی، تبھی شوناگن رات سونے سے پہلے سارے دن کی چھوٹی لیکن اچھوتی بات کا مشاہدہ کرکے اُسے لکھتی اور پھر اُس کاپی کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیتی اور شاید یہیں سے اس کتاب کا نام ’’دا پِلو بُک‘‘ (The Pillow Book) پڑا۔ شوناگن کی اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اُس نے اُسے کبھی کتاب کی طرح نہیں لکھا۔ کتاب میں آپ کو کسی معزز انسان کی شرٹ پر پڑی ہلکی سی سلوٹوں سے لے کر بارش کی آواز اور محل میں چلنے والے خفیہ رومانوی معاملات تک کے متعلق جاننے کو ملے گا۔ کیسے شوناگن بظاہر بہت معمولی تجربات کو بھی کتنا دلچسپ اور مزے دار بنا کر لکھتی ہیں کہ جیسے اُن کی زندگی رنگوں سے بھرپور ہے، لیکن درحقیقت ان کی زندگی اور نوکری یکسانیت اور بوریت کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔
کتاب میں صرف مثبت باتوں کا ذکر نہیں…… بلکہ ایک انسان ہونے کے ناتے جانب داری اور منفی جذبات کا بھی ذکر ہے، جو کہ عموماً سب انسانوں میں پائے جاتے ہیں اور یہی اس کتاب کی خصوصیت بھی ہے۔
شوناگن کی یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ کبھی کبھار جب باہری حالات کو بدلنا آپ کے اختیار میں نہ ہو، تو ان کی جانب اپنے نظریے، رویے اور سوچ کو بدلا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ وہ ایک پوائنٹ جہاں زندگی بس محرک (Exciting) ہوگی اور شاید بوریت کے احساسات ہمارا پیچھا چھوڑ دیں گے، وہ پوائنٹ صرف آپ کے ذہنوں/ دماغوں میں ہے۔ ایسا کوئی پوائنٹ درحقیقت موجود ہی نہیں۔ ہم جتنا ’’پلیژر‘‘ لیں، اتنا ہی ہمیں بوریت رات خوابوں میں آکر ڈرائے گی۔ ہم جتنا تیز اس سے بھاگیں گے، یہ اتنا ہی تیز ہمارا پیچھا کرے گی۔ کیوں کہ یہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ انسان کی زندگی کی حقیقت ہے۔
یووال نوح ہراری نے اپنی کتاب ’’اکیس سبق اکیسویں صدی کے لیے‘‘ میں پورا ایک سبق بوریت کے نام لکھا ہے کہ کیسے اگر ماڈرن دنیا میں اسے پراسس کرنا نہ سیکھا، تو یہ جدید دنیا اور ٹیکنالوجی آپ کو پلیژر کے ’’ٹریڈ مل‘‘ (Treadmill) پر دوڑاتی رہے گی۔
ڈاکٹر کال نیوپورٹ نے اپنی کتاب ’’ڈیجیٹل مینمل ازم‘‘ (Digital Minimalism) میں خلوت (Solitude) اور بوریت کے ختم ہونے کو لال جھنڈی دکھائی ہے۔
اعلا ایجادیں، چاہے سائنس میں ہوں یا فن (Art) کے میدان میں، سب اسی حسین، خوب صورت، ناخوش گوار احساسِ بوریت کی دین ہیں۔ زندگی ایسی ہی ہے عام اور بور…… اس میں دلچسپی اپنے طریقے سے ڈھونڈنا آپ کا کام ہے۔ اس کے ساتھ کھیلنا آپ کی ذمے داری ہے۔ اسے قبول کریں، زندگی زیادہ مشکل نہیں لگے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے