جذبات کا کھیل

مجھے کسی نے فیس بک کی ایک پوسٹ میں ٹیگ کیا، جہاں لکھا تھا کہ ’’سیلف ہیلپ کتابیں اور موٹیویشنل وڈیوز ایک انڈسٹری بن چکی ہے۔ یہ ایک بزنس ہے۔ یہ سب پڑھ کر ڈوپامین خارج ہوتا ہے دماغ میں اور یہ کتابیں آپ کو لت میں مبتلا کرتی ہیں (کاش کتابوں کے مطالعہ کی لت مجھے لگ جائے۔ سیلف ہیلپ کتابوں کی لت بھی بہت کم لوگوں کو لگتی ہے۔ ہمارے یہاں ویسے بھی بہت کم لوگ کتاب پڑھتے ہیں جو غلطی سے پڑھنے کا سوچ رہے ہیں، انھیں بھی اس قسم کی باتیں کرکے روکا جارہا ہے۔) وغیرہ وغیرہ۔‘‘
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ سیلف ہیلپ بزنس کیوں بن گیاہے؟ کیوں کہ اس دنیا میں کیا ہے جو بزنس نہیں؟ تعلیم، صحت، روزمرہ کی زندگی سے منسلک ہر چیز بزنس ہے اور بزنس کرنا ہرگز غلط نہیں۔ ایک بزنس ہی تو نہیں ہمارے ملک میں…… کیوں کہ بزنس کی طرف ذہن (Mindset) بہت منفی ہے، جیسے بزنس کرنا کوئی شیطان کی پوجا کرنے جیسا ہو! اور رہی سہی کسر ملک کے حالات اور تجارت سے منسلک پالیسی پورا کردیتی ہے۔
دراصل سیلف ہیلپ کتابوں میں موجود نصیحتیں کوئی نیا علم نہیں۔ یہ سب قدیم فلسفہ ہے۔ ڈبا نیا ہے، لیکن اس میں موجود علم پرانا ہے۔ لوگ اپنی کامیابی کی کہانیاں اور تجربہ شیئر کرتے ہیں، جنھیں سن کر ہم متاثر ہوتے ہیں اور ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ ایک بہتر زندگی گزاریں اور یہ سب ایک عام نارمل انسان ہونے کی نشانی ہے۔
بہتری کی جانب جانا انسان ہونے کی علامت ہے۔
مسئلہ بزنس نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جتنی آسان سیلف ہیلپ میں نصیحت ہے، اتنا ہی مشکل اس نصیحت پر عمل کرنا ہے۔ لیکن نصیحت پر عمل کرنا مشکل کیوں ہے ؟
کیوں کہ عمل جڑا ہوتا ہے۔ جذبات (Emotions) سے اور جذبات بہت پیچیدہ (Complex)ہوتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ جانتے سب ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عمل کیسے کیا جائے؟ کیوں کہ عمل تک جو رستہ جاتا ہے وہ پیچیدہ ہوتا ہے…… اور جب عمل نہیں ہوتا، تو پھر ہم کہتے ہیں کہ شاید سیلف ہیلپ دھوکا یا بزنس ہے۔
آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی انزائٹی آپ کی نشو و نما کو روک رہی ہے۔ یہ فضول ہے، لیکن آپ کو سمجھ نہیں آرہا ہوتا کہ اس سے کیسے نکلا جائے؟ کیوں کہ انزائٹی اپنے آپ میں کئی جذبات کا ملاپ ہوسکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کی انزائٹی آپ کے بچپن کی دین ہو اور اس فضول کی انزائٹی (انزائٹی ہمیشہ فضول نہیں ہوتی، یہ بہت کام بھی آتی ہے ) ختم کرنے کے لیے آپ کے تھراپسٹ یا آپ کو اپنی اس انزائٹی کی جڑ میں جا کر وہاں موجود اس کہانی کو جو اس وقت (بچپن میں) آپ کے ماحول/ والدین نے آپ کو سنائی، اس کو ہٹا کر نئی کہانی (Narrative) سنانی ہوگی، تاکہ آپ خواہ مخواہ کی انزائٹی سے باہر آکر نئی نظر سے دنیا کو دیکھ کر نئے تجربات کرسکیں۔
اس سب میں وقت لگتا ہے۔ مختلف چیزیں (Tools and Techniques) درکار ہوتے ہیں۔ یہ بہت محنت طلب کام ہے۔ پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے موٹی ویشن (Motivation) نہیں، بلکہ مستقل مزاجی (Consistency) چاہیے ہوتی ہے، اور مستقل مزاجی نہ ہونے کا تعلق بھی آپ کے جذبات سے ہوتا ہے، جو لوگ اپنے جذبات کو ایک طرف کرکے اپنا روز کا کام کرنے کی یا کوئی نیا کام جو شروع کیا ہے، اسے مستقل طور پر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ مستقل مزاج نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ انھیں جذبات، سوچیں اور ماضی کے تجربات جکڑے رکھتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے