’’مورچا‘‘ (اُردو، اسمِ مذکر) کا اِملا عام طور پر ’’مورچہ‘‘ رقم کیا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘، ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘، ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ اور ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’مورچا‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’حصار‘‘، ’’وہ گڑھا جو قلعہ کے چاروں طرف کھود دیتے ہیں اور جس میں فوج کو بٹھاتے ہیں، تاکہ دشمن کی ضرب نہ پہنچے‘‘، ’’وہ فوج جو مورچے پر لڑنے کے واسطے رہتی ہے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
دوسری طرف ’’فرہنگِ عامرہ‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ اور ’’جامع اُردو لغت‘‘ کے مطابق ’’مورچہ‘‘ صحیح اِملا ہے جب کہ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘ کے مطابق اِملا کی دونوں صورتیں صحیح ہیں۔
اس طرح اُردو اِملا پر سند کی حیثیت رکھنے والے رشید حسن خان اپنی کتاب ’’انشا اور تلفظ‘‘ (ناشر ’’الفتح پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2014ء) کے صفحہ نمبر 91 پر ’’مورچا‘‘ رقم کرتے ہیں۔
اب طُرفہ تماشا یہ ہے کہ ’’مورچہ‘‘ خود ایک الگ لفظ ہے جس کے معنی صاحبِ نور نے ’’چھوٹی چیونٹی‘‘ اور ’’زنگ لوہے کا‘‘ رقم کیے ہیں۔
صاحبِ نور نے ’’مورچا‘‘ کے ذیل میں حضرتِ داغؔ کا ایک خوب صورت شعر رقم کیا ہے، ملاحظہ ہو:
نگہ دل سے لڑے، مژگاں جگر سے
بندھا ہے مورچا کیا گھر کے گھر سے
حاصلِ نشست: ’’مورچہ‘‘ چوں کہ ایک الگ لفظ ہے اور اس کے معنی ’’چھوٹی چیونٹی‘‘ کے ہیں، اس لیے بمعنی حصار ہمیں بہر صورت اِملا ’’مورچا‘‘ ہی رقم کرنا چاہیے۔