عام طور پر ’’آبا و اجداد‘‘ کا املا یوں لکھا جاتا ہے: ’’ابا و اجداد‘‘، ’’آباء و اجداد‘‘ اور ’’آبا ؤ اجداد۔‘‘
’’نور اللغات‘‘، ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ اور حسن اللغات (جامع) کے مطابق صحیح اِملا ’’آبا و اجداد‘‘ ہے جب کہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘، ’’فیروز اللغات (جدید)، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید) اور ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے) کے مطابق ’’آباء و اجداد‘‘ اور ’’علمی اُردو لغت (جامع) کے مطابق ’’آبا ؤ اجداد‘‘ ہے۔ اس کے معنی ’’باپ دادا‘‘، ’’بڑے بوڑھے‘‘، ’’کنبہ‘‘، ’’کٹم‘‘، ’’خاندان‘‘ اور ’’مورث‘‘ کے ہیں۔
اب مشکل فیصلہ یہ ہے کہ مذکورہ چار قسم کے اِملا (’’ابا و اجداد‘‘، ’’آباء و اجداد‘‘، آباؤ اجداد‘‘ اور آبا و اجداد‘‘) میں کس قسم کو صحیح مانا جائے؟
اس حوالے سے اُردو اِملا پر سند کی حیثیت رکھنے والے رشید حسن خان اپنی تالیف ’’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘‘ (مطبوعہ ’’طیبہ نور پرنٹرز، نسبت روڈ، لاہور۔ طبع دوم جولائی 2018ء) کے صفحہ نمبر 19 پر رقم طراز ہیں: ’’آبا و اجداد‘‘: باپ دادا {’’آبا‘‘ جمع ہے ’’ابّ‘‘ کی: باپ۔ اجداد جمع ہے ’’جد‘‘ کی: دادا۔ (’’اب‘‘ اور ’’جد‘‘ تشدید کے بغیر بھی آتے ہیں)۔ آبا و اجداد سے مراد ہوتی ہے خاندان کے پچھلے بزرگوں سے}۔
اس طرح اپنی ایک اور کتاب ’’انشا اور تلفظ‘‘ کے صفحہ نمبر 65 پر رشید حسن خان ’’الفاظ کا اِملا‘‘ کے زیرِ عنوان رقم کرتے ہیں: ’’آبا و اجداد (باپ دادا)۔‘‘
اس حوالے سے نواز عصیمی کا ایک شعر سنداً ملاحظہ ہو:
رقم ہے جس پہ میرے آبا و اجداد کا شجرہ
مرے گھر کی کھدائی میں وہی کتبہ نکل آیا
حاصلِ نشست:۔ رشید حسن خان کے تجویز کردہ اِملا ’’آبا و اجداد‘‘ کو تحریر میں ترجیح دی جانی چاہیے جس پر ’’نوراللغات‘‘ جیسے معتبر حوالے کے علاوہ ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ اور حسن اللغات (جامع)‘‘ نے بھی مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔