محسن حامد کے ناول ’’ایگزٹ ویسٹ‘‘ پر اِک نظر

تبصرہ: صوفیہ کاشف 
’’جب ہم ہجرت کرتے ہیں، تو ہم اپنی زندگیوں میں سے اُن لوگوں کا قتل کردیتے ہیں، جو ہم سے بہت پیچھے رہ چکے ہوتے ہیں۔‘‘
ہجرت کے ایک معنی زندگی سے سیکھے دوسرے محسن حامد کی کتاب سے۔ ’’ایگزٹ ویسٹ‘‘ دراصل ہجرت کا المیہ ہے مگر صرف ہمارے جیسے ہزاروں محفوظ مستقبل کی خاطر اپنی بنیادوں سے اکھڑ کر نئی جگہ پر جنم لینے والے تارکینِ وطن کا ہی نہیں……بلکہ اس سے کہیں آگے بڑھ کر ان لوگوں کا جن کی زمین کا دامن آگ پکڑ لے، آسمان پر ستاروں کی بجائے گولہ بارود چمکنے لگے، گلیوں میں موت رقص کرنے لگے، پاؤں زمین میں دھنسنے لگیں اور انسان کو صرف اور صرف ذندگی کی خاطر اپنی زمین سے اکھڑنا پڑے۔ وہ اک بے نام محرومی اور کسک جو اک مہاجر کے قدموں میں ہر وقت بیڑی بن کر پڑی رہتی ہے، تب کئی گنا بھاری اور خون آلود ہوجاتی ہے…… جب اس ہجرت کا مطلب ایک زمین سے اکھڑ کر دوسری زمیں پر اُگنا نہیں بلکہ ہواؤں میں ٹوٹنا، بکھرنا،گم شدہ ہو جانااور محض سانس کی تلاش میں ہر آنے والے دن کے لیے پہلے سے زیادہ بے حال ہو جانا ہو۔ یہی محسن حامد کی ’’ایگزٹ ویسٹ‘‘ کا موضوع ہے۔
ہمیں یوں لگتا ہے جیسے یہ کہیں بہت قریب کی کہانی ہو، پشاور سے لے کر افغانستان تک یہ کہیں کی بھی داستان ہوسکتی ہے…… مگر یہ کہاں کی ہے،یہ فیصلہ لکھنے والے نے آپ پر چھوڑ دیا ہے۔ چناں چہ کسی انجان علاقے کے انجان شہر میں دو ایسے پریمیوں کی داستان جو موت اُگلتی گلیوں میں اپنے پیاروں کو مرتے چھوڑ کر ہاتھ تھامے زندگی کی تلاش میں نکلتے ہیں، ایسے کہ ہر پُراسرار دروازے کے پیچھے پہلے سے بڑھ کر آزمایش ہے، سختی ہے،تکلیف اور اندھیرا ہے۔ نادیہ اور سعید کی محبت جو اس تکلیف دہ ہجرت کی ہر رگڑ اپنے وجود پر سہتی ہے،ٹوٹتی ہے، مرتی ہے اور زندگی اور موت کی جنگ کے بیچ، حال اور ماضی کے درمیاں اپنے وجود کو قایم رکھنے کی جستجو کرتی ہے مگر زندگی، ساتھ اور محبت بچانے کی جنگ میں سے صرف زندگی سانس بحال کر پاتی ہے، محبت جاں بلب پہنچتی ہے اور ساتھ زندگی ہار بیٹھتا ہے۔
’’ایگزٹ ویسٹ‘‘ ایک رومانٹک ناول ہے۔ آپ کَہ سکتے ہیں اس لیے کہ اس کا اہم موضوع محبت بھی ہے…… مگر یہ رومانٹک نہیں، چوں کہ اس میں رات کے ستارے بھی ہیں اور دل میں دھڑکتے گیت بھی،محبت کے سروں پر ناچتی رات بھی اور کاندھے پر رکھے سر بھی، مگر انھیں رسیلے گیتوں کے بیچ میں گولیوں کی ترتراہٹ بھی ہے، درختوں سے لٹکی ذبح شدہ لاشیں بھی، بستیوں پر چھائی خوف زدہ تاریکی اور کیمپوں سے چھلکتی وحشت بھی، غریب الوطنی میں جاری بقا کی جنگ بھی اور ’’مرو یا مار دو‘‘ کا جھگڑا بھی، بارش کی دعا کرتی ابابیلیں بھی، تو آبادیوں پر برستی کالی بارشیں بھی۔
’’ایگزٹ ویسٹ‘‘ ایک المیے کا کھلا اظہار ہے۔ وہ المیہ جو وزیرستان سے لے کر افغانستان تک، کشمیر سے میانمار تک، فلسطین سے یمن اور شام تک پھیلا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی کہانی جو خوں خوار جوج ماجوج کی قوم سے جان بچانے نکلتے ہیں اور پھر ایسے اکھڑتے ہیں کہ عمر بھر گرم پتھروں پر ننگے پاؤں چلتے ہی رہتے ہیں۔ سعیداور نادیہ بھی ایسے ہی نکلے تھے، اپنی زندگی کو ہاتھوں میں تھامے ایسی تپتی گلیوں سے اپنے تلوے زخمی کرتے۔
نادیہ، اک قدامت پرست معاشرے کی مضبوط لڑکی جو زندگی کے ہاتھوں سے اپنے لیے فیصلہ کرنے کا اختیار چھین سکتی ہے،جو اپنے فیصلوں اور نظریات پر کھڑے ہونے اور رشتے، خاندان اور سماج کے ہر دباو سے خود کو ماورا رکھنے پر قادر ہے۔
سعید، اک عام سا شرمیلا اسیرِ دام مجنوں۔ جب ان کے بے نام شہر میں اسلامائزیشن کی یا دہشت گردی کی قوتیں جڑ پکڑنے لگتی ہیں…… اور ایک نظریے یا فلسفے کے نام پر خوف و وحشت کے سائے ان کے سروں پر ناچنے لگتے ہیں، تو ہزاروں دوسرے افراد کی طرح وہ بھی ان پُراسراریت سے بھرے دروازوں کی طرف لپکتے ہیں…… جن کے پیچھے خواب بھی ہوسکتے تھے اور عذاب بھی۔ ایک اُمید جو انھیں کھینچتی تھی کہ شاید ان دروازوں کے اندھیروں سے گزر کر ان کے قدم اس خون آلود شہر سے دور جاسکتے تھے، جہاں پر زندگی کی سانسیں ڈوب رہی تھیں۔
مذہب اور سیکولرازم، شہر اور ملکوں کی حدوں سے بے نیاز، صحیح اور غلط کی بحث کے بغیر محسن حامد نے ہمیں بتائے ہیں ان انسانوں کے دکھ…… جن کے سروں پر وحشت اور بربریت نافذ ہوجاتی ہے۔ پھر چاہے اس کا نام، نظریہ اور وجہ کوئی بھی ہو۔ کسی مقبوضہ شہر یا ریاست میں ایک ایک فرد کن کن مسایل اور تکلیف سے گزرتا ہے۔ دیواریں گرتی، مکان ڈھاتے سب کو نظر آتے ہیں، مگر ان کے اندر زندہ بچ جانے والے انسانوں پر کیا بیتتی ہے؟ یہی اس داستان کا عنواں ہے۔
اپنے شہر کی گلیوں سے جاں بچا کر نکلنے والے نادیہ اور سعید کو اپنی محبت اور وعدوں سمیت کس کس مشکل سے گزرنا پڑتا ہے؟ زندگی کی سختیاں ان پر ٹوٹ کر برستی ہیں۔ دو تعلیم یافتہ مہذب انساں اس ہجرت کی بھٹی میں کس طرح پستے ہیں کہ محض اک انسان نما زندگی گزارنے کی جد و جہد میں ایک عمر گزار دیتے ہیں۔ایسے کہ کبھی پاؤں پسار کر نیند نہیں ملتی، تو کبھی جسم دھونے کو پانی نایاب ہوجاتا۔ سر پر چھت، پاؤں میں زمیں تو بہت بڑی بڑی نعمتیں ہیں…… جن سے ان کے دامن خالی ہوچکے۔ ہر قدم تکلیف دہ، ہر صبح تھکی ہوئی بے حال……جب انسان کے پاس جینے کے لیے سوائے ایک ادھوری امید کے یا اک یاسیت بھرے انتظار کے کچھ نہیں ہوتا، آنے والی اس صبح کا انتظار جو اکثر گھر کا رستہ بھول جاتی ہے۔ ہر رات جب احساس دلاتی ہے کہ زندگی میں رنگین خوابوں کے رنگوں سے بڑھ کر بھی مہلک رنگ ہوتے ہیں…… اذیت اور تنہائی کے دکھ میں رنگے، غریب الوطنی کے الم، زمیں سے پاؤں کا اُکھڑ جانا، خلاؤں میں بھٹک جانا اور خود سے جدا ہو جانا۔
راتوں کو خواب دیکھنے اور صبح کی روشنی جینے والے ہم عام لوگ ان صبحوں کے اندھیروں کو نہیں جھانک پاتے…… جن کو اس کتاب میں محسن حامد نے صفحہ صفحہ کرکے ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔
یہ کتاب ہے ’’سروائیول‘‘ کی اک داستان…… جس کا ہر عنصر اپنے ’’سروائیول‘‘ میں مگن ہے۔ زندگی جی لینے کو بے قرار ہے، محبت پنپنے کو۔ وحشت نگل لینے کو کھڑی ہے، تو بے زمینی پلٹ دینے کو……ایسے میں سعید اور نادیہ کو ہر صفحہ اُلٹ دینا پڑتا ہے اور ہر اس در سے گزر جانا پڑتا ہے جو ان کی راہ میں آیا۔پھر چاہے وہ کسی ملک کی سرحد ہو کہ ہجر کی، کسی روایت کی یا رسم کی، کسی ڈر کی یا وحشت کی، در در بھٹکتے زندگی بھی ٹوٹتی ہے اور محبت بھی چلتے چلتے تھک جاتی ہے۔ بے وطنی، بے یقینی اور لامکانی ان کے وجود کے ساتھ ان کے حوصلے بھی تھکا دیتی ہے۔بقا کی جنگ میں ہر مٹھی کھول دینی پڑتی ہے۔ پھر چاہے اس میں سے گھر کی دہلیز چھوٹے، والدین کا ساتھ نکلے، آنکھوں میں چمکتے خواب گر جائیں، دل میں لگی محبت مر جائے، بقا کی اس جنگ میں سب کچھ ہار جانا پڑتا ہے۔
بے زمینی کی سزا کاٹتا یہ جوڑا پھر خود کو ڈھونڈنا بھی چاہے، تو ڈھونڈ نہیں پاتا۔جب انساں کے پاس کوئی گھر کوئی زمیں کوئی تعلق اور کوئی بھی آسرا نہ رہے، تو اسے اپنے رب کی طرف ہی لوٹنا پڑتا ہے۔کسی آسرے، کسی تعلق کی خواہش سعید کو بھی عبادت کی طرف لے جاتی ہے۔ آندھیوں کے ساتھ اڑتا اس کا وجود کسی مضبوط تعلق یا حوالے کی بھوک بن جاتا ہے۔
ایک مشکل اسلوب اور گھمبیر زباں کے ساتھ گندھا یہ ناول بلاشبہ ایک بہترین منظرنامہ ہے…… آج کی دنیا کے بہت سے الجھے بدصورت چہروں اور حالات کا۔
طاقت کی لڑائیوں میں مصروف دنیا میں انساں اور انسانیت پر کیا کچھ بیت جاتا ہے؟ اگرچہ اس کا مکمل احاطہ تو نہیں……مگر جتنا ہے گہرا اور تلخ ہے۔ اور زندگی کے ان دکھوں کو محسوس کرنے کے لیے،جو ہمارے خطے کا ایک بڑا حصہ سہ رہا ہے، اور ان کا درد جان لینے کو ایک بہترین مطالعہ ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے