ریاست چلانے والے نوشتۂ دیوار پڑھ لیں

پچھلے ہفتے سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں امن کے لیے کتنے لوگ نکلے تھے؟ اس سوال کا جواب خود وہی احتجاجی اجتماع ہے…… جو اپنی مثال آپ تھا۔
ممکنہ طور پر سوات کی معلوم تاریخ میں کبھی اتنے زیادہ لوگ احتجاج کی غرض سے نہیں نکلے۔ حیران کن بات یہ ہوئی کہ نہ کسی گاڑی کا شیشہ ٹوٹا، نہ سرکاری یا نجی املاک کو نقصان ہی پہنچا…… جو پاکستان خاص کر پنجاب میں احتجاجوں کا خاصا ہے۔ خوش کُن امر یہ بھی تھا کہ سٹیج پر حکم ران پارٹی کے علاوہ باقی سب کی مختلف سطح کی نمایندگی موجود تھی۔ نمایندگان میں نیشنل پارٹی کا صوبائی صدر ایمل ولی مع گروپ، جماعت اسلامی کا سینیٹر مشتاق احمد خان اور پختون مزاحمتی تحریک کے راہ نما منظور پشتین نمایاں رہے۔ ان راہ نماؤں نے آپسی نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک سٹیج پر کھڑے ہوکر ایک ہی بات (امن کا قیام) کی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے کچھ لیڈران اور ورکروں نے پارٹی کی ٹوپیاں ضرور پہنی ہوئی تھیں…… لیکن مجموعی طور پر ایک ہی جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دے رہا تھا…… ’’سفید جھنڈا، امن کا جھنڈا‘‘ ساتھ ایک ہی نعرہ بلند آواز سے سنائی دے رہا تھا: ’’مونگ پہ خپلہ خاورہ امن غواڑو!‘‘ یعنی ہم اپنی سر زمین پر اَمن چاہتے ہیں۔
اس پُرامن و پُراثر قومی احتجاج نے ڈھیر ساروں کو حوصلہ دیا اور کئیوں کو ’’متنبہ‘‘ بھی کیا۔ گویا بہت احسن طریقے سے یہ بات سمجھائی گئی کہ آج کا سوات 2007ء کا سوات نہیں ہے۔ جب ناکردہ گناہ کی سزا میں اہلِ سوات نے بھرے پُرے گھر چھوڑے اور اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے۔
آج بھی اہلِ سوات کے زخم ہرے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں وہ اندوہناک مناظر گویا کسی فلم کے پردے پر عکاسی کی شکل میں متحرک ہیں۔
ملاکنڈ ڈویژن میں سوات کے لوگ روزِ اول سے بہت نرم خو اور ’’ماڈریٹ‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب پورے ملاکنڈ ڈویژن میں صرف سوات ہی میں سنیما موجود تھا۔ دیر، باجوڑ اور بونیر سے لوگ ہفتہ وار فلم دیکھنے سوات جایا کرتے تھے۔ اُن دنوں جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی۔ لہٰذا شو بھی عموماً شبِ جمعہ کو ہوا کرتا تھا۔ تب جمعرات کی شام کو جو بندہ گاؤں میں نہیں ملتا تھا، عام خیال یہی ہوتا تھا کہ وہ سوات فلم دیکھنے گیا ہوگا۔ پھر یہ لوگ شو دیکھنے کے بعد رات گئے گھروں کو واپس لوٹتے۔ اُن دنوں سوات میں قتل مقاتلے کی اِکا دُکا خبر مہینوں میں سننے یا پڑھنے کو ملتی۔
مجھے یہ بھی یاد ہے جب ہمارے دیر میں لوگ مولویوں کی وجہ سے ہلالِ عید پر لڑتے تھے، ایک مولوی کہتا تھا کہ روزہ ہے، دوسرا کہتا تھا عید ہے…… گھر گھر یہی صورتِ حال دیکھنے کو ملتی تھی۔ کسی کا روزہ ہوتا تو کسی کی عید……! اگرچہ اللہ تعالا کا شکر ہے کہ عوامی دباو کے نتیجے میں اب یہاں کے مولوی بھی راہِ راست پر آچکے ہیں…… اور عید روزہ وفاق کے ساتھ منایا جاتا ہے…… لیکن تب بھی سوات بھر کے لوگ وفاق کے اعلان پر روزہ رکھتے تھے…… اور وفاق ہی کے کہنے پر عید منایا کرتے تھے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ سوات آغاز ہی سے تعلیم یافتہ، سلجھے ہوئے اور وفاق پسند لوگ ہیں۔ پھر نجانے کس نے اور کیوں کر سوات کو برباد کرنے کا فیصلہ کیا؟ اپنوں اور غیروں نے مل کر وہ کھیل کھیلا جس نے سوات کے دریا، پہاڑ، آبشار، اشجار، چرند، پرند، حیوان، انسان حتی کہ ہر ذی روح کو متاثر کیا۔
ایسے میں اگر حالیہ بد روحوں سے لوگ سہمے ہوئے ہیں، تو تعجب نہیں…… کیوں کہ فطرت یہی ہے کہ سنپولے اگر بروقت نہ مارے جائیں، تو وہ سانپ ہی بن جایا کرتے ہیں۔
اب چوں کہ اہلِ سوات کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں کے لوگوں کو بھی سب کچھ معلوم ہوچکا۔ اس لیے مذکورہ بد روحوں کی آمد کے ساتھ ہی عوام کا احتجاج بھی منطقی ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کئی عشروں سے پختون علاقوں میں ’’نام نہاد دہشت گردی‘‘ کے مخالف جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اگرچہ سابقہ فاٹا میں یہ جنگ تھی، تب بھی جنگ قابلِ نفرت ہی تھی، لیکن جواز بنانے والے کَہ سکتے تھے کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر غیر محفوظ ہے…… یا یہ سب ’’اسٹرٹیجک‘‘ معاملات ہیں…… پھر بھی نہ چاہتے ہوئے کچھ تُک بنتی تھی…… مگر سوات میں دہشت گردوں کی آمد……! اس کی کیا تُک بنتی ہے؟
قارئین! یہ وہ سوال ہے جس پر جواز گڑنے والے بھی لاجواب ہوجاتے ہیں۔ بارڈر تقریباً مکمل سیل ہوچکا ہے۔ سابقہ فاٹا اب بندوبستی اضلاع میں بدل گیا ہے۔ پولیس فورس وہاں تعینات ہے۔ عسکری اور نیم عسکری ادارے ہر دم بیدار، خفیہ ادارے عوام کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہیں۔ سوات کا افغانستان کے ساتھ کوئی بارڈر بھی نہیں، تو ایسے میں اگر دہشت گرد سوات پہنچ کر دہشت گردی کرتے ہیں، تو اہلِ سوات کے سوالات اور شکوک و شبہات جایز ہیں۔
ریاستی و حکومتی ادارے اگر سوات میں اہلِ سوات کے پُرامن مگر پُراثر احتجاج کی شکل میں نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں، تو قصور ان کا ہے۔ وگرنہ سوات کی تو اب ہر گلی، ہر کوچہ اور ہر دیوار جانتی ہے کہ یہ ’’پردیسی‘‘ کون ہیں؟
اہلِ سوات امن چاہتے ہیں، صرف امن…… اور امن کا قیام جتنا جلدی ہو، اتنا ہی ریاست کے فایدے میں ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے