سوات بہت سے حوالوں سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ان منفرد حوالوں میں ایک یہ ہے کہ یہ وادی تاریخی تصاویر کا ایک قیمتی اور قابلِ قدر ذخیرہ رکھتی ہے۔ سوات میں تصاویر کھینچنے کا آغاز کب اور کیسے ہوا، وقت گزرنے کے ساتھ اس فن میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس قابلِ قدر کام میں کن شخصیات نے اپنا حصہ ڈالا، موجودہ دور میں کون سی شخصیات نے تاریخی تصاویر کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ کر رکھا ہے اور کون سی شخصیات تاریخی تصاویر کے سیاق و سباق سے واقفیت رکھتی ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب ڈھونڈنا ایک مشکل اور تحقیق طلب کام ہے۔ راقم اس موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لیے ایک عرصے سے تاریخی مواد اکھٹا کر رہا ہے۔ سرِ دست ایک تاریخی تصویر اور اس حوالے سے پائی جانی والی غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے جو کہ عرصۂ دراز سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے سوات کی ایک نامی گرامی شخصیت حاجی زاہد خان صاحب نے ودودیہ ہال سوات میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستِ سوات کی پاکستان کے ساتھ الحاق والی تصویر جھوٹی ہے۔ موصوف نے اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ ان کی ملاقات ایک تقریب میں مرحوم میاں گل عدنان اورنگ زیب کے ساتھ ہوئی تھی، جس میں انھوں نے عدنان اورنگ زیب سے سوال کیا تھا کہ آیا ریاست سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا تھا یا نہیں؟ حاجی زاہد خان کے مطابق عدنان اورنگ زیب مرحوم نے جواباً کہا تھا کہ وہ تصویر جس میں ریاستِ سوات کے حکم ران (میاں گل عبدالودد المعروف بہ لقب بادشاہ صاحب) کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، وہ جعلی ہے۔ حاجی صاحب نے اور بھی کئی باتیں فرمائی تھیں، جو یہاں بیان کرنا مقصود نہیں۔
وہ تصویر جس کی طرف حاجی زاہد خان صاحب نے اشارہ کیا تھا، وہ سوات کی چند مشہور تاریخی تصاویر میں سے ایک ہے، جس میں میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) کو ایک کاغذ پر دستخط کرتے ہوئے دِکھایا گیا ہے۔ تصویر میں بادشاہ صاحب کے علاوہ دوسری شخصیات یعنی میاں گل جہانزیب معروف بہ لقب والی صاحب، میاں گل اورنگ زیب معروف بہ لقب ولی عہد صاحب اور عطاء اللہ المعروف وکیل صاحب کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اب آتے ہیں اس تصویر کے تاریخی پس منظر کے بارے میں جاننے کی طرف۔ مارگریٹ برکی وائٹ (Margaret Bourke White) ایک نامی گرامی خاتون امریکی فوٹو گرافر رہی ہیں۔ وہ تقسیمِ ہند سے کچھ عرصے پہلے متحدہ ہندوستان آئی تھیں، تاکہ تقسیمِ ہند کے وقت رونما ہونے والے واقعات کو ’’لائف میگزین‘‘ (LIFE MAGZINE) کے لیے اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرسکیں۔ انھوں نے مہاتما گاندھی اور قایدِ اعظم محمد علی جناح کے علاوہ دیگر بڑی شخصیات کو بھی فوٹو گراف کیا تھا۔
مارگریٹ برکی وائٹ نے تقسیمِ ہند کے وقت مہاجرین کی ایسی تصویر کشی کی تھی، جو شاید ہی کسی نے کی ہو۔ ان کی یہ تصاویر انٹرنیٹ پر بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کا جب وہ سن 1947ء میں ہندوستان کے دورے پر تھیں، تو انھوں نے تقسیمِ ہند سے پہلے کچھ شاہی ریاستوں کا بھی دورہ کیا تھا، تاکہ ان ریاستوں کے بارے میں مغربی دنیا کو آگاہی حاصل ہوسکے۔ مارگریـٹ نے ان ریاستوں کے حکم رانوں کو بھی اس موقع پر اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ خاتون فوٹو گرافر ہندوستان تین مرتبہ 1946ء، 1947ء اور 1948ء میں تشریف لائی تھیں۔
خاتون نے اپنی کتاب "Halfway to Freedom, In The Words and Pictures of Margaret Bourke-White” میں اپنی سوات آمد کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں سواتیوں اور بادشاہ صاحب کے بارے میں مختصر مگر دلچسپ باتیں تحریر کی ہیں۔
زیرِ بحث تصویر کے علاوہ انھوں نے ریاستِ سوات کے حکم ران بادشاہ صاحب کی اور بھی تصاویر کھینچی تھیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ تصاویر تقسیمِ ہند سے پہلے کھینچی گئی تھیں، جب کہ ریاستِ سوات کا الحاق پاکستان کے ساتھ نومبر 1947ء کو ہوا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تصویر تقسیمِ ہند سے پہلے مارگریٹ برکی وائٹ کے کیمرے سے لی گئی تھی، تو پھر اس کے ساتھ کیوں یہ لکھا جاتا ہے کہ ’’ریاستِ سوات کے حکم ران پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر رہے ہیں؟‘‘ یہ غلط فہمی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
جب راقم کی نظر سے ذکر شدہ کتاب گزری، تو اس تاریخی تصویر بارے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لیے راقم نے میاں گل عدنان اورنگ زیب (مرحوم) کو 23 مارچ 2022ء کو ان کے وٹس ایپ نمبر پر ایک ایس ایم ایس کیا جس کے الفاظ یہ تھے: "This picutre of Badshah Sahib is frequently seen on social media. It is said that in the picture Badshah Sahib is signing an Instrument of Accession with Pakistan. Even Yaqoob Khan Bangash has given such details in his book published by Oxford Univeristy Press. As for as I know, this picture was taken by Margaret Bourke White in July 194 7(prior to partition). Kindly share your views about the photo for correction of record.”
درجِ بالا انگریزی پیغام کے ذریعے راقم نے عدنان اورنگ زیب (مرحوم) سے دریافت کیا تھا کہ ان کی اس تصویر بارے کیا رائے ہے؟ یاد رہے کہ عدنان اورنگ زیب (مرحوم) تاریخی تصاویر کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتے تھے جو ان کو بادشاہ صاحب، والی صاحب اور پھر ولی عہد صاحب سے منتقل ہوا تھا۔ تاریخی تصاویر پر ان کی رائے سند کی حیثیت رکھتی تھی۔
میرے مذکورہ وٹس ایپ پیغام کے کچھ لمحے بعد انھوں نے مجھے کال کی (یاد رہے کہ عدنان اورنگ زیب 30 مئی 2022ء کو ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات پاگئے ہیں۔) ان کی یہ گفتگو تقریباً ایک گھنٹے پر محیط تھی۔ اس کال کے دوران میں، مَیں نے ان سے کچھ مزید تاریخی مغالطوں کے بارے میں بھی دریافت کیا اور انھوں نے کھلے دل کے ساتھ میرے کچھ تلخ سوالات کا جواب دیا۔
عدنان اورنگ زیب (مرحوم) نے مذکورہ تصویر کے بارے میں میری رائے سے اتفاق کیا اور مزید معلومات بھی فراہم کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب امریکی خاتون فوٹو گرافر نے بادشاہ صاحب کی تصاویر کھنچیں، تو انھوں نے بادشاہ صاحب کو یہ بھی بتایا تھا کہ یہ تصاویر ’’لائف میگزین‘‘ میں اُس وقت منظرِ عام پر ٓآئیں گی، جب ہندوستان کی تقسیم ہوچکی ہوگی۔
مرحوم کے بقول، خاتون فوٹو گرافر نے اس موقع پر اس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ ایک ایسی تصویر لینا چاہتی ہیں جس میں ان کو ایک دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے دکھایا جائے۔ ایسے پوز میں تصویر لینے کا مقصد یہ تھا کہ جب تقسیمِ ہند کے بعد یہ میگزین میں شایع ہو، تو اس کے ساتھ یہ لکھا جاسکے کہ ریاستِ سوات کے حکم ران، پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر رہے ہیں۔ خاتون فوٹو گرافر کی خواہش پر ایسی تصویر کھینچی گئی تھی، جس میں وہ ایک دستاویز پر دستخط (مہر ثبت) کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔
مرحوم نے یہ بھی بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے والد میاں گل اورنگ زیب (مرحوم) سے یہ بھی پوچھا تھا کہ جب بادشاہ صاحب نے ایک "Blank Paper” پر اپنی مہر لگائی، تو آپ نے اس کاغذ کا کیا کیا تھا؟ ولی عہد صاحب کا جواب تھا کہ ایک "Blank Paper” پر بادشاہ صاحب کے دستخط کا کوئی غلط استعمال کیا جاسکتا تھا، تو اس لیے انھوں نے وہ کاغذ پھاڑ دیا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ تصویر تقسیمِ ہند کے کچھ مہینے بعد (غالباً 5 جنوری 1948ء کو) ’’لائف میگزین‘‘ میں شایع ہوئی تھی، جب ریاستِ سوات، پاکستان کے ساتھ باقاعدہ الحاق کرچکی تھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جب ماہِ نومبر میں الحاق کی اصل دستاویز پر بادشاہ صاحب دستخط کر رہے تھے، تو اس وقت کوئی تصویر نہیں لی گئی تھی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔