آزاد کشمیر ٹورازم اتھارٹی، خدشات و تحفظات

سیاحت کاشعبہ عالمی معیشت میں 7.6 ٹرلین ڈالر سے زیادہ کی شراکت داری کرچکا ہے…… جو عالمی جی ڈی پی کا10. 2 فی صد بنتا ہے۔ چند سال پہلے سیاحت نے 292 ملین نوکریاں تخلیق کیں۔
شمالی علاقہ جات میں سیاحت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ پاکستان ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 50 ملین سے زیادہ مقامی سیاح متوقع ہیں۔ سیاحوں کی اتنی بڑی تعدادی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاحت کا شعبہ ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ استعداد رکھتا ہے۔
ورلڈ ٹورازم کونسل کے مطابق سیاحت کے شعبے نے 2019ء کے دوران میں قومی جی ڈی پی میں 5.9 فی صد اضافہ کر تے ہوئے 3.9 ملین نوکریاں تخلیق کیں۔ اگر ہم اپنی سیاحت کو چین کی سطح تک لے آئیں، تو قومی جی ڈی پی میں اس کی شراکت5.1 سے بڑھ کر 11 فی صد ہوجائے گی اور یہ شعبہ 2.37 ملین اضافی نوکریاں بھی تخلیق کرے گا۔
کشمیر ارضی جنت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔کشمیر کی خوب صورتی کو دنیا کی کوئی بھی زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ آزاد کشمیر میں 100 سے زیادہ ثقافتی ورثہ اور آثارِ قدیمہ کے مقامات موجود ہیں جن میں سکھ، بدھ مت، ڈوگرہ اور مغل دور کے تاریخی مقامات شامل ہیں۔ اگر ہم نقل و حمل اور رسل و رسایل کے مسایل کو حل کرلیں، تو مذہبی سیاحت کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔ حکومت آزادکشمیر نے سیاحوں کی آسانی کے لیے آزاد سیاحتی ایپ اور سیاحتی سمارٹ کارڈکے علاوہ سپیشل ٹورازم پولیس کا شعبہ بھی قایم کر رکھا ہے۔ مظفرآباد اور میر پور میں دو عجایب گھروں پر کام جاری ہے۔ وادیِ نیلم، وادیِ کاغان کے متوازی سمت میں موجود ہے۔ دونوں وادیوں کو ٹورازم اتھارٹی کے تحت مختلف مقامی راستوں کے زریعے ملا کر سیاحت کو ترقی دی جاسکتی ہے۔
نانگا پربت کی ایک چوٹی ’’سر والی چوٹی‘‘ جو کہ 6326 میٹر بلند ہے، یہ بھی وادیِ نیلم میں موجود ہے۔ اسے آزاد کشمیر کی بلند ترین چوٹی سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم خچر ٹریک بنالیں، تو ہم ’’بابون سر‘‘ کو ’’پتلیاں جھیل‘‘ کے ذریعے ’’رتی گلی جھیل‘‘ کے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فاصلہ کم ہوگا…… بلکہ مقامی افراد کو روزگار بھی ملے گا۔ رتی گلی جھیل سے ہم وادیِ نیلم، وادیِ ناراں اور کاغان سے ملائیں…… اور وادیِ نیلم ہی کو ’’سونٹھر ٹنل‘‘ کے ذریعے گلگت بلتستان سے ملا کر سیاحوں کو ایک سیاحتی سفر میں تین سیاحتی پیکیج دے سکتے ہیں۔
ناران کاغان کا سفر کرتے ہوئے سیاح رتی گلی جھیل کے راستے وادیِ نیلم میں داخل ہوں اور پوری وادی گھومنے کے بعد شونٹھر ٹنل کے ذریعے گلگت بلتستان کی سیر کرتے ہوئے واپسی کی راہ لیں۔
گلگت بلتستان سے شونٹھر ٹنل کے ذریعے براستہ نیلم ویلی پنڈی اسلام آباد کاراستہ دیگر تمام راستوں سے بہت کم ہے۔ سیاحت کے علاوہ یہ راستہ تجارت اور دفاع کے لیے بھی استعمال ہوگا۔ شاردہ کے مقام پر موجود قدیم یونی ورسٹی کی بحالی سے سیاحت کو فروغ ملے گا۔
شاردہ کے مخالف سمت میں سرگن نالہ کے ساتھ بھی ایک راستہ وادیِ کاغان کی طرف جاتا ہے۔ اسے بھی سیاحت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیل کوہ پیمائی کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اڑنگ کیل سیاحتی لحاظ سے بے مثال اور پُرکشش جگہ ہے۔ سر والی چوٹی اور 25 کلو میٹر تک پھیلے گلیشیرسے سیاح لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اس طرح گریس ویلی، برزل پاس کے بالکل ساتھ واقع ہے۔ برزل، وادیِ نیلم کو استور کے ذریعے گلگت بلتستان سے ملاتا ہے۔ اس راستے کو بھی سیاحتی، تجارت اور دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
’’آزادکشمیر ٹورازم اتھارٹی‘‘ کے قیام سے چکار، زلزال جھیل، وادیِ نیلم، جہلم اور لیپہ میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔ ضلع پونچھ کی پیرل وادی، راولکوٹ کی بنجوسہ جھیل اور تولی پیر، منگلہ جھیل، رام کوٹ کا قلعہ اور ملحقہ اضلاع اور وادیاں بالواسطہ طور پر ٹورازم اتھارٹی کے قیام سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کریں گی۔
آزادکشمیر ٹورازم اتھارٹی کے قیام سے جہاں سیاحت کو فروغ ملے گا، روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے اور خطہ ترقی کی منازل طے کرے گا، وہاں اس اتھارٹی کے قیام پر عوامی سطح پر کچھ خدشات و تحفظات بھی جنم لے رہے ہیں، جن کو دور کیے بغیر اہداف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
اس اتھارٹی کے مجوزہ مسودے کے مطابق یو ں محسوس ہوتا ہے کہ محکمۂ جنگلات، معدنیات، سیروسیاحت وغیرہ اس تھارٹی کے ماتحت کام کریں گے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آزادکشمیر کے جنگلات اور معدنیات کی سمگلنگ میں اضافہ ہوگا۔ مجوزہ مسودے کے مطابق اس تھارٹی کا قیام کچھ سابقہ قوانین اور شقوں کو یا تو مکمل طور پر ختم کر دے گا، یا ان میں تبدیلیاں کی جائیں گی…… جن کی بنا پر عوامی سطح پرجنگلات، معدنیات اورقیمتی جڑی بوٹیوں، جنگلی حیات وغیرہ کے تحفظ پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ مجوزہ مسودے کے مطابق اس اتھارٹی کے انتظام و انصرام میں عسکری نمایندگی کو شامل کیا گیا ہے جو کہ درست عمل نہیں۔
سول اداروں میں عسکری افراد کا براجمان ہونا سویلین حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اگر ہم نے سول اداروں میں عسکری اداروں کو اختیارات دینے ہیں، تو پھر سب کچھ فوج کے حوالے کر دیا جائے اور سول اداروں کو ختم کردیا جائے۔ اگر حکومتِ وقت کے لیے کرسی بچانے کے لیے عسکری قیادت کو شامل کرنا ناگزیر ہے، تو اسے مرکز میں انتظام و انصرام تک محدود رکھا جائے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق سیاحتی اور اکنامک زونز کے قیام اور ان میں داخلے کے لیے بیرئیر لگانا بھی عوامی سطح پر تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ مقامی افراد کو ان اکنامک اور سیاحتی زونز میں داخلے کے لیے کسی بھی قسم کی اجازت سے مستثنا قرار دیا جائے۔ مقامی سطح پر ان سیاحتی اور اکنامک زونز کا انتظام و انصرام مقامی افراد کے سپرد کیا جائے، نہ کے باہر سے لاکر افراد بٹھا دیے جائیں، جن کی وجہ سے مقامی سطح پر لوگوں کی نقل و حمل متاثر ہو۔
اگر کوئی سیاحتی مقام یہ اتھارٹی لیز پر دے گی، تو اس کے لیے مقامی باشندہ ہونے کی شرط لازمی قراردی جائے۔سبھی سیاحتی مقامات پر مقامی افراد اپنے خاندانوں او ر مال مویشیوں کو لے کر گرمیوں کا موسم گزارنے جاتے ہیں، جنہیں ہم مقامی زبان میں بہیک کہتے ہیں۔
کشمیر کے مضافاتی علاقوں میں لوگوں کے روزگار کا دوسرا بڑا ذریعہ گلہ بانی ہے۔ اگر ان سیاحتی مقامات کو مقامی افراد کے لیے بندیا محدود کر دیا گیا تو گلہ بانی کا شعبہ شدید متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ان سیاحتی زون کا قیام اور ان کی بقا بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ مقامی لوگوں کی طرزِ بود و باش، رہن سہن، ثقافت اور ان کی بیہکوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اگر اس اتھارٹی کے قیام سے صدیوں کی روایات اور رسم و رواج میں خلل پیدا ہوا، تو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بکروال ایک اور بڑا شعبہ ہے جو صدیوں کی روایات اور ثقافت کے علاوہ حکومت کو کثیر زرِ مبادلہ دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ ٹورازم اتھارٹی کے قیام کے تحت قایم کیے جانے والے سیاحتی زونز کی وجہ سے بکروالوں کی نقل و حمل شدید متاثر ہوگی جس سے ہماری روایات اور ثقافت کے ساتھ قومی خزانے کو مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑے گا۔
آزادکشمیر کے مضافاتی علاقوں میں طرزِ رہن سہن شہروں سے مختلف ہے۔ ان سیاحتی زونز کو مقامی آبادی سے دور قایم کیا جائے اور سیاحتی نقطۂ نظر سے علاقہ اس زون میں شامل کیا جائے نہ کہ سیاحتی زون کے نام پر شاملات پر قبضہ شروع کیا جائے۔کشمیرکے تمام سیاحتی علاقوں پر سب سے پہلا حق کشمیریوں کا ہے اور کسی بھی علاقے کو ان کے لیے ’’نو گو ایریا‘‘ قرار دینا ظلم اور جارحیت ہے۔ آزاد کشمیر میں کشمیریوں کے لیے بھارتی ذہنیت کا مظاہر نہ کیا جائے۔ تمام تر سیاحتی مقامات کی حدود اور دایرۂ کارکو پبلک کیا جائے، تاکہ اس اتھارٹی کے قیام کی آڑ میں قبضہ مافیا مسلط نہ ہوسکے۔ تمام سیاحتی علاقوں کے عوامی، سیاسی اور سماجی نمایندوں کو اس اتھارٹی میں نمایندگی دی جائے اور مقامی سطح پر سیاحتی زونز کا تمام کنڑول مقامی ذمے داران کے حوالے کیا جائے۔ ان زونز کے قیام کی وجہ سے آبی، فضائی، زمینی اور ماحولیاتی آلودگی کے عوامل کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کمائی کے چکر میں خطۂ کشمیر کے حسن کو تباہ کر دیں۔ ٹورازم اتھارٹی اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام سیاحتی زونز کی آمدن اسی علاقے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے صرف کی جائے گی۔ جنگلات اور معدنیات کے سابقہ قوانین کو تبدیل نہ کیا جائے اور نہ اس اتھارٹی کے قیام سے سابقہ قوانین کے متصادم قوانین بنائے جائیں، جس کا فایدہ اٹھاتے ہوئے مافیا جنگلات اور معدنیات کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگ جائے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے