’’چوچلا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا املا عام طور پر ’’چونچلا‘‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
’’جدید اُردو لغت‘‘ کے مطابق دُرست املا ’’چوچلا‘‘ ہے جب کہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’نوراللغات‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت‘‘ اور ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ کے مطابق ’’چوچلا‘‘ اور ’’چونچلا‘‘ دونوں الفاظ کا املا دُرست ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ صاحبِ آصفیہ نے لفظ کے ذیل میں محاورہ ’’چوچلا بِگھارنا‘‘ درج کیا ہے اور صاحبِ نور نے دو محاورے ’’چوچلا بگھارنا‘‘ اور ’’چوچلا کرنا‘‘ درج کیے ہیں۔
اس حوالے سے رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اُردو املا‘‘ (مطبوعہ زُبیر بکس، اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 230 اور 231 پر یہ گتھی ان الفاظ میں سلجھاتے ہیں: ’’چوچلا: نور و آصفیہ میں دونوں طرح (چوچلا، چونچلا) مگر چوچلا بگھارنا، چوچل ہائی، چوچل ہایا؛ یہ سب آصفیہ میں نون کے بغیر ہیں۔ نور میں چوچلا بگھارنا، چوچلا کرنا، نون کے بغیر ہیں۔ چونچل ہایا اور چونچل ہائی مع نون ہیں۔ ترجیح کے لیے اِس کو نون کے بغیر مان لینا چاہیے۔‘‘
نیز صاحبِ نور نے حضرتِ قلقؔ اور حضرتِ عاشقؔ کے اشعار سنداً درج کیے ہیں، بالترتیب ملاحظہ ہوں:
بولی لِلّٰہ چوچلے نہ کرو
نہ مرے ہاتھ سے فضیحت ہو
اب شامتیں آئی ہیں مقرر
چل دور نہ مجھ سے چوچلے کر
حاصلِ نشست:۔ درج شدہ تفصیل کا جایزہ لیا جائے، تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ یہ لفظ لکھتے وقت املا ’’چوچلا ‘‘ کو ترجیح دینی چاہیے۔