’’کوپل‘‘ (فارسی، اسمِ مونث) کا املا عام طور پر ’’کونپل‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’نوراللغات‘‘ کے مطابق دُرست املا ’’کوپل‘‘ ہے نہ کہ ’’کونپل۔‘‘ البتہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ میں ’’کوپل‘‘ کے ساتھ ’’کونپل‘‘ بھی اس تفصیل کے ساتھ درج ہے: ’’کوپل مع مشتقات‘‘جب کہ اس کے معنی ’’شگوفہ‘‘، ’’کن‘‘، ’’ننھے پھوٹے ہوئے ملائم پتے‘‘، ’’کلی‘‘ وغیرہ۔
اس حوالہ سے رشید حسن خان کی کتاب ’’اُردو املا‘‘ کے صفحہ نمبر 228 اور 229 پر درج تفصیل یہ گتھی یوں سلجھاتی ہے:’ ’کوپل: آصفیہ میں ’’کوپل‘‘ کو فارسی بتایا گیا ہے اور اس کے ذیل میں یہ صراحت بھی کی گئی ہے کہ: ’’اُردو والوں نے اِسی کو ’’کونپل‘‘ کرلیا ہے۔‘‘ اِس عبارت سے صاف طور پر مطلب یہ نکلتا ہے کہ مولف کے نزدیک ’’کوپل‘‘ نون کے بغیر فارسی ہے اور مع نون (کونپل) اُردو ہے، مگر عبارت میں ہر جگہ ’’کوپل‘‘ ملتا ہے۔ پھر ’’کونپل‘‘ جہاں لکھا گیا ہے، وہاں اِس کے آگے یہ بھی لکھا گیا ہے: ’’دیکھو کوپل مع مشتقات۔‘‘ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ مولف کے نزدیک مرجح لفظ ’’کوپل‘‘ ہے، نون کے بغیر۔ یہ پریشان کُن صورت ہے۔ نور (نوراللغات) میں ’’کونپل‘‘ کا ذکر ہی نہیں ملتا، اس میں صرف ’’کوپل‘‘ ہے۔ اسی طرح سرمایہ میں بھی یہ نون کے بغیر ملتا ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا اِملا نون کے بغیر (کوپل) دیکھنے میں آتا ہے اور اب اس کو مرجح ماننا چاہیے۔ ‘‘
صاحبِ آصفیہ نے حضرتِ ناسخؔ کا یہ شعر درج کرکے ’’کوپل‘‘ کے املا پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے کہ
بڑھنا اُس طفل کا دِلاتا ہے یاد
پھوٹنا شاخِ گل سے کوپل کا
دوسری طرف صاحبِ نور نے بھی حضرتِ قدرؔ کا شعر بہ طورِ سند درج کرکے واضح کردیا کہ ’’کوپل‘‘ ہی دُرست املا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
ڈالیاں ہیں دُم طاؤس گھنے پتوں سے
ابھی طاؤس کی چوٹی ہو جو پھوٹے کوپل