بلے کی مدد سے کھیلنے والے کو بلے باز کہا جاتا ہے۔ بلے باز دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو آرام سے کریزپر کھیلتے ہیں، رنز بنانے کے علاوہ ان کا مقصد میچ کو ہارنے سے بچانا ہوتا ہے۔ دوسری قسم اُن بلے بازوں کی ہوتی ہے جو تیز اور زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا مقصد میچ جیت جانا اور تماشائیوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔
تحصیلِ بٹ خیلہ کے بلے باز (پی ٹی آئی) وقت گزارنے کے لیے کریز پر کچھ زیادہ ہی وقت سے موجود ہیں اور ان کا رنز بنانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں۔ بس وہ وقفے وقفے سے (صحت سہولت کارڈ کی شکل میں) ایک آدھ شاٹ کھیلتے رہتے ہیں۔ اکثر دونوں بلے باز پچ پر کئی منٹوں تک صلاح مشورہ کرتے ہیں اور تماشائیوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بس ابھی میچ میں کچھ تبدیلی آنے والی ہے، تاکہ وہ اپنا معاوضہ حلال کرکے لوگوں کو مصروف رکھیں۔ چوں کہ لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آگئی ہے اور وہ ٹیسٹ کرکٹ کے بجائے فرسٹ کلاس کرکٹ پسند کرنے لگے ہیں، اس لیے وہ کریز پر زیادہ دیر تک بغیر رنز بنائے جانے والے لوگوں کو پسند نہیں کرتے۔ اس لیے یہاں کے بلے بازوں کے فینز میں بہت حد تک کمی آ چکی ہے۔
31 مارچ کو جو میچ (بلدیاتی انتخاب) کھیلا جا رہا ہے، اس میں بہ ظاہر بلے بازوں کو پہلی جیسی داد نہیں ملے گی…… یعنی ’’بیٹ‘‘ کو پہلے کی طرح پذیرائی ملنے والی نہیں۔
تیر اور کمان پرانے اور روایتی جنگی ہتھیار ہیں۔ ان کو شکار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے استعمال کے لیے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحصیلِ بٹ خیلہ کا ایک گروپ تیر کو کاغذوں پر لڑنے والی لڑائی (الیکشن) میں اپنی شناخت کے طور پر استعمال کرتا ہے، چوں کہ یہ پرانے روایتی ہتھیار ہیں…… اس لیے پرانے لوگ ان کو کامیابی سے چلاتے تھے اور کوئی بھی ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ اب پرانے تجربہ کار بزرگ اس دنیا میں نہیں رہے…… اور نوجوان نسل ان کو چلانے کی مہارت نہیں رکھتی…… اس لیے اس کو یہ ادراک نہیں کہ کہاں سے اور کس پر فایر کیا جائے؟ وہ بعض اوقات تیر کو چلانے کے لیے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جس سے مخالف کے بجائے اپنے ہی لوگ زد میں آجاتے ہیں۔ کاغذی لڑائی جو بلدیاتی انتخابات کی صورت میں 31 مارچ کو ہونے والی ہے…… اس میں تیر کو جس شخص کے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے، تیر کے منجھے ہوئے نشانہ بازوں (جیالوں) کو شکوہ ہے کہ اس شخص نے ماضیِ قریب (2018-2015ء) میں ’’پک اَپ‘‘ اور ’’کتاب‘‘ استعمال کرکے تیر والوں کے لیے مشکلات پیدا کی تھیں۔ اس وجہ سے تیر کے بعض نشانہ بازوں نے احتجاجاً تیر کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔
اس صورتِ حال میں شاید تیر 31 مارچ کو اپنے نشانے کو نہیں پہنچ پائے، حالاں کہ بٹ خیلہ تحصیل میں تیر سے محبت کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔
بعض لوگ اپنے نشان کے لیے ایک خطرناک جانور شیر استعمال کرتے ہیں۔ نشان ان کا جتنا خطرناک ہے، نعرہ ان کا اتنا ہی ہردل عزیز اور محبت کا ہے۔ یعنی ’’ووٹ کو عزت دو!‘‘ لیکن تحصیل بٹ خیلہ کے ووٹرز ان کے بیانیے کو ابھی عزت دینے کے موڈ میں نہیں۔
بٹ خیلہ تحصیل میں ایک بندہ ترازو لیے پھر رہا ہے۔ یہ ترازو 1970ء کے بعد منظرِ عام پر آیا تھا۔ ان کے اپنے چہیتے جنرل ضیاء الحق کی ترازو پر پابندی لگانے کے بعد انھوں نے بعد میں چھتری، سائیکل، موٹر اور کتاب کو استعمال کیا۔ ویسے تو ترازو ناپ تول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے…… لیکن اصطلاحی طور پر اس کا مطلب انصاف کو یقینی بنانا ہے…… لیکن موجودہ صورتِ حال میں یہ مشکل لگ رہاہے۔ بقولِ شاعر
کہ چا تلہ دَ انصاف پہ لاس کی درکڑہ
خپل ٹٹو او دَ بل اَس بہ برابر کڑے
(ترجمہ) اگر کسی کو انصاف کرنے کے لیے ترازو دیا جائے، تووہ اپنے خچر کو دوسرے کے گھوڑے کے برابر کردے گا۔
چوں کہ ترازو والا بٹ خیلہ میں رہ رہا ہے اور بٹ خیلہ ایک بڑا تجارتی مرکز ہے…… جس میں ترازو کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے، تو شاید 31 مارچ کو ترازوپر زیادہ ٹھپے لگنے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ اس بندے کا ایک تدریسی ادارہ ہے جس میں سیکڑوں غریب طلبہ کے ساتھ فیس میں رعایت برتی جاتی ہے۔
کتاب خواہ آسمانی ہو یا انسانی، علم و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ ہرحا ل میں یہ قابلِ احترام ہوتی ہے۔ ایک خاص قسم کے لوگوں کا نشان کتاب ہے۔ کتاب سے پہلے وہ کھجور کے درخت کو بطورِ انتخابی نشان استعمال کرتے تھے۔ ویسے تو ہمارے لیے کھجور اور کتاب دونوں مقدس ہیں، لیکن ہم کھجور بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور کتاب پڑھنے کا کوئی شوق نہیں رکھتے۔ شاید انہوں نے کھجور کے بجائے کتاب کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ کتاب کی وساطت سے لوگوں کو یہ باور کرانا آسان ہے کہ وہ صرف خدا اور رسولؐ کے تابع دار ہونے کی وجہ سے خدا کی مخلوق کی بھلائی کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔
بٹ خیلہ تحصیل میں دیہاتی گاؤں کی ’’چمک‘‘ سے خالی ایک مولوی کے ہاتھ میں کتاب تھما دینے سے کتاب والوں نے اپنے اس بیانیے کو مضبوط کیا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں سے ان کی اہلیت اور قربانی کی بنیاد پر سلوک کرتے ہیں، لیکن سیاست دانوں کی چالیں سمجھنے والے یہ سرگوشیاں بھی کرتے ہیں کہ اس فیصلہ سے جماعت نے درگئی تحصیل میں چمک والے کو ایڈجسٹ کرنے کا کفارہ ادا کیا ہے۔ آج کل لوگ ہر مسئلے کو مذہبی حوالے سے دیکھتے ہیں اورلوگ ہر مسئلے کا حل (خواہ وہ سائنسی ہو یا سماجی) مذہب میں ڈھونڈتے ہیں تو معاشرے کے اس رحجان کی بنیاد پر اس بات کا امکان موجود ہے کہ 31 مارچ کو لوگ کتاب پر ٹھپا لگوائیں، لیکن جماعت کے بنیادی اراکین کے مطابق کتاب والا بندہ غیر معروف ہے۔ اس لیے خود جماعت کے بنیادی ارکان بھی اچھے نتایج کی توقع نہیں رکھتے۔ اگرچہ اب بھی عام لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ پہلے مرحلے میں کتاب کی شان دار کارکردگی اس الیکشن میں بھی برقرار رہے گی۔
لالٹین اندھیرے میں روشنی بکھیرنے والا ایک سادہ آلہ ہے۔ بجلی کی ایجاد سے پہلے اس کی بہت اہمیت تھی۔ آج کل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ تحصیل بٹ خیلہ کے ایک خاص قسم کے لوگ لالٹین کو انتخابی نشان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بہت پہلے وہ ہٹ (جونگڑہ) استعمال کرتے تھے۔ اس کے نشان سے پتا چلتا ہے کہ یہ عاجز اورمنکسر المزاج لوگ ہیں۔ لالٹین والا سورج کی روشنی میں اپنے دفتر میں لوگوں کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے اور رات کے وقت لالٹین ساتھ لے کر گلی گلی پھرتا ہے، تاکہ ہر طرف روشنی پھیلے۔ اس کے بزرگوں (شعیب خان) نے بھی روشنی کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے جیلیں کاٹی ہیں اور مقدموں کا سامنا کیا ہے۔ لالٹین والوں کی لوگوں کے ساتھ رویوں میں جو مثالی تبدیلی آئی ہے، وہ ملاکنڈ میں پہلی بار محسوس کی گئی ہے۔ اس وجہ سے ملاکنڈ میں ایک خاص فضا بن رہی ہے کہ 31 مارچ کو لالٹین غیر متوقع طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ ملک کو اپوزیشن کی طرف سے تحریکِ عدمِ اعتماد کی وجہ سے سیاسی طور پر غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ان حالات میں اگرالیکشن کمیشن بلدیاتی الیکشن شیڈول کے مطابق منعقد کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو بٹ خیلہ کا ممکنہ منظرنامہ اسی طرح ہوگا، جس کی مَیں نے اس کالم میں منظر کشی کی ہے ۔
پی پی ووٹ کے حوالے سے مضبوط جماعت سمجھی جاتی ہے، لیکن ٹکٹ کے مسئلہ پر بہت سے پُرعزم جیالوں نے بغاوت کا علم بلند کر رکھا ہے۔ اگر پارٹی ان کو منانے میں کامیاب نہیں ہوئی، تو تیر نشانے کو ہِٹ نہیں کر پائے گا۔ پی ٹی آئی بھی اپنی ناقص کارگردگی اور بے تحاشا مہنگائی کی وجہ سے مقابلے سے آؤٹ نظر آرہی ہے۔ مسلم لیگ ن کئی سالوں سے خاصی محنت کررہی ہے لیکن ابھی تک مقابلے کی پوزیشن میں نہیں پہنچی۔ کتاب والے اپنے امیدوار کی نام زدگی پرخوش نہیں اور اس طرح وہ ایسے پُرجوش نظر نہیں آ رہے ہیں، جس طرح ان کو آنا چاہیے تھا۔
اصل مقابلہ ترازو اور لالٹین میں ہے۔ ترازو کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ اس کے علاوہ ترازو والا اپنے تدریسی ادارے اور انتخابی مہم کے دوران میں سیاست کے داؤ پیچ جانتے ہوئے شایستگی سے اپنا موقف بیان کرنے سے لوگوں میں کافی مقبول ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لالٹین والا بھی چند خاص عوامل کی وجہ سے دن بدن ہر دلعزیز ہوتا جا رہا ہے…… جس میں ان کا رنگ ونسل سے بالاتر ہوکر ایک کی خدمت کے لیے دستیاب ہونا، عام آدمی کے مسایل کو ببانگِ دہل اربابِ اختیار تک پہنچانا، عام لوگوں کو لالٹین والوں کی دہشت گردی کی جنگ میں قربانیوں کا احساس ہونا، روایتی سیاست کو چھوڑ کر ہر ایک در پر حاضری دینا اور پی پی اور پی ٹی آئی میں قوم پرست اور لبرل ذہن رکھنے والوں کی اس کی طرف راغب ہونا شامل ہیں۔
نوٹ:۔ یہ تجزیہ مَیں نے ڈھیر سارے سیاسی کارکنوں سے ان کی رائے جاننے اور سوشل میڈیا سے معلومات اکٹھے کرنے کے بعد تحریر کیا ہے۔ یہ تجزیہ میری ذاتی رائے پر مشتمل ہے۔ اگر کسی کو اس سے اختلاف ہے، تو کھل کر اخلاق کے دایرے میں رہتے ہوئے اپنا مخالفانہ موقف پیش کرسکتا ہے۔ ہر رائے کا احترام کرنا ہم پر فرض ہے۔
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔