ہم غریب کیوں ہیں؟

اکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق، معیار میں کمتر یا مقدار میں ناکافی ہونے کی حالت کو ’’غربت‘‘ کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اسے ’’پاورٹی‘‘ (Poverty) کہتے ہیں جو یونانی زبان کے لفظ ’’پاؤ پیرتس‘‘ سے نکلا ہے…… جس کا مطلب ہے تہی دست ہونا۔ زیادہ جامع تعریف یہ ہے کہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے وسائل کا معیار میں کمتر یا مقدار میں ناکافی ہونے کی حالت کو غربت کہتے ہیں۔
غربت چار حرفی (غ ر ب ت) لفظ ہے اور یہی چار حروف سمجھنے سے غربت کا فلسفہ سمجھا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک غربت اس لیے ہے کہ لوگ غور نہیں کرتے (غ)، رابطہ نہیں رکھتے اور کرتے (ر)، بچت نہیں کرتے (ب) اور تربیت حاصل نہیں کرتے (ت)…… اور ان چار چیزوں یعنی غور، رابطہ، بچت اور تربیت کے نہ ہونے یا کم زور ہونے سے لوگ غربت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ہم میں سے اکثر غریب اس لیے ہیں کہ وہ اس بات پرغور نہیں کرتے کہ وہ غریب کیوں ہیں؟ جس دن انسان یہ غور کرنا شروع کردیتا ہے کہ وہ غریب کیوں ہے؟ اس کی غربت کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ کم از کم ایسا کرنے سے اس کے ذہنی افلاس کے خاتمے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ غور و فکر کرنے والا انسان ہی اصل حقیقت تک پہنچتا ہے اور اسے قدرت کے پوشیدہ کارخانوں کی چابیاں مل جایا کرتی ہیں۔
یہ غور و فکر ہی ہے جس سے سربستہ راز کھلتے ہیں اور جس کی طرف قرآنِ مجیدبار بار دعوت دیتا ہے۔ بس جس دن انسان نے یہ غور و فکر کرنا شروع کیا کہ وہ غریب کیوں ہے؟ اس کی غربت کا ایک چوتھائی مسئلہ حل ہوا۔ یہ کام انتہائی آسان ہے۔ بس کسی دن صبح سویرے پُرسکون نیند کے بعد خالی ذہن اور کھلے سینے کے ساتھ کسی بھی دریا کے کنارے ، پہاڑی کے دامن یا کوئی اور مناسب جگہ کا انتخاب کریں ۔ مراقبہ کی حالت میں اپنے آپ کو اپنے سامنے بٹھا کر یہ سوال پوچھیں کہ ہم غریب کیوں ہیں؟
آپ کو اپنے اندر سے آواز آئے گی کہ ہم غریب اس لیے ہیں کہ ہم نے بنیادی ضروریاتِ زندگی سے زیادہ اہمیت ان ثانوی چیزوں کو دی ہے جن کے بغیربھی زندگی بڑی ٹھاٹ سے گزرسکتی ہے۔ ہم زیادہ تر کام اور اخراجات لوگوں کو متاثر کرنے، ان پر دھاک بٹھانے اور اپنا نام بنانے یعنی نمود و نمائش کے لیے کرتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کو اس حقیقت کا ادراک تک نہیں ہوتا کہ وقت ’’کاٹنے‘‘ کا نہیں بالکل ’’استعمال کرنے‘‘ کی چیز ہے اور اسے بہترین طریقے سے استعمال کرکے ہم بہت سارے مسائل سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
غور کرنے سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم میں سے اکثر لوگ اپنا قیمتی وقت یا تو کسی بڑے صاحب (خان، ملک یا افسر) کے حجرے میں گپیں مارتے (خوشامد کرتے) گزارتے ہیں، یا کسی دُکان میں سیاسی بحث و مباحثے اور ’’سازشی نظریوں‘‘ کے پرچار میں۔ ہم میں سے اکثریت دن میں اوسطاً دس سے بارہ گھنٹے ضایع کرتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ وقت پیسا ہے اور وقت کا صحیح استعمال ہمیں غربت کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔ روزمرہ کے اخراجات، مشاغل اور مصروفیات پر غور کرنے سے ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان میں بہت ساری چیزیں فضولیات و لغویات تو ہیں…… مگر ضروریات ہرگز نہیں۔
غور و فکر کے اس مرحلے میں ہمیں اپنے تعلقات، رابطوں اور نیٹ ورک کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ رابطہ کاری وہ بہترین وسیلہ ہے کہ جس سے آپ کو نئے مواقع کا پتا چلتا ہے۔ رابطہ کاری کے ذریعے آپ کو کامیاب لوگوں سے براہِ راست سیکھنے اور ان کی تحریر و تقریر اور مشاہدات و تجربات سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ جہاں محسوس ہو کہ آپ سیکھ رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں، تو رابطہ کاری کو مزید مضبوط کریں اور ان کی غمی خوشی میں شرکت کو یقینی بنائیں اور جہاں لگے کہ بڑے صاحب کی نشست میں صرف خوشامد کا ہی دور چلتا ہے، وہاں سے بڑے وقار کے ساتھ الگ ہوجائیں۔ یاد رکھیں کہ ہر آدمی اپنے اردگرد کے پانچ لوگوں کا اوسط ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنا رابطہ ان لوگوں کے ساتھ رکھیں جو آپ کو آگے بڑھنے، نیا سیکھنے اور ترقی کرنے کے مواقع دیں۔ یہ آپ کو شاید خود غرضی لگے…… لیکن یہاں یہ خود غرضی نہیں۔ کیوں کہ جو اپنا نہیں بن سکتا، وہ کسی اور کا کیا بن پائے گا!
غربت کے خاتمے کے لیے تیسری اور سب سے اہم چیز’’ بچت ‘‘ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ آپ چائے پینا چھوڑ دیں۔ ایسا چاہوں بھی تو اپنے استادِ محترم سحاب صاحب اور پیارے بھائی عدنان جانباز کی محبت میں لکھ نہ سکوں۔ البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ غربت سے صرف وہ لوگ نکلتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ چیزیں مارکیٹ میں بیچتے ہیں اور کم سے کم چیزیں مارکیٹ سے خریدتے ہیں۔ آپ جب ڈبے کا دودھ (ملک پیک) خریدتے ہیں، تو آپ ملک کے بڑے کارخانہ داروں اور ہسپتالوں کی آمدن میں اضافہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ آپ بکری پال کر اس سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ اسی طرح مرغی پالنا، گھریلو سطح پر سبزیوں کی کاشت اور ان جیسی دیگر کئی سرگرمیاں نہ صرف آپ کو اضافی اخراجات سے بچاتی ہیں بلکہ آپ کے لیے خاطر خواہ بچت کی ضمانت بھی بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ غمی خوشی اور دیگر مواقع پر فضول خرچی سے مکمل اجتناب کیجیے۔
یاد رکھیں کہ کسی کو یاد نہیں رہنا کہ سال پہلے آپ نے کیا پہنا تھا اور کیا کھایا تھا؟ البتہ یہ سب کو اچھی طرح یاد رہنا ہے کہ سال پہلے آپ کے خیالات اور افکار کیا تھے؟ لہٰذا ان چیزوں کی بجائے اپنی ذہنی استعداد پر خرچ کریں۔ اخراجات کے معاملے میں’’لوگ کیا کہیں گے ‘‘ سے کبھی مرعوب نہ ہوں۔
غور وفکر، رابطہ کاری اور بچت سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آگے بڑھنے کے لیے آپ کو تربیت لینے کی ضرورت ہے۔ آپ مزدور ہیں، تو کاریگر بننے پر توجہ مرکوز کریں۔ آپ کاریگر ہیں، تو اپنے کام کوچھوٹی صنعت میں تبدیل کریں اور دیگر لوگوں کو روزگار کے مواقع دیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ سال ہاسال مزدوری کریں گے اور کم کمائیں گے…… لیکن کبھی تھوڑی سی رقم اور پیسا خرچ کرکے ہنر نہیں سیکھتے۔ فنکشنل لیٹریسی صرف تین ماہ میں ممکن ہے…… لیکن اکثر لوگ زندگی بھر اَن پڑھ رہنا گوارا کرتے ہیں…… لیکن یہ تکلیف نہیں اٹھاتے۔ اسی طرح ڈھیر ساری مشینوں کے کاریگر اب بھی ہم دیگر شہروں سے بلاتے ہیں۔ ایسے ڈھیر سارے ہنر ہیں کہ جن کو سیکھ کر لاکھوں کمایا جاسکتا ہے۔ کم پڑھے لکھے نوجوان بھی کافی سارے فیلڈز میں تربیت حاصل کرکے غربت کی چکی سے باہر نکل سکتے ہیں…… لیکن یہاں ہر موبائل شاپ پر ہندوستانی، انگریزی اور ترکی فلمیں اور ڈرامے تو موبائل میں ڈالنے کی سہولت موجود ہے…… لیکن ہنرمند بنانے کی ویڈیوز کسی بھی جگہ دستیاب نہ ہوں گی۔ حالاں کہ انٹرنیٹ پر بے حساب موجود ہیں۔ لہٰذا بات پھر وہی ’’غور کرنے پر‘‘ آجاتی ہے۔ اس لیے جس دن ہم نے اپنا وقت ’’ارطغرل‘‘ اور ’’عثمان‘‘ کی سیکڑوں اقساط دیکھنے کی بجائے کچھ نیا سیکھنے میں صرف کیا…… اسی دن ہمارا خوش حالی کا سفر شروع اور غربت ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گی۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔