’’شُبہہ‘‘ (عربی، اسمِ مذکر) کا املا عام طور پر ’’شُبہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’اُردو املا‘‘ (مطبوعہ ’’زبیر بُکس‘‘، سنہ اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 286 پر رشید حسن خان ’’شُبہہ‘‘ کو دُرست املا مانتے ہیں۔ صراحت کے طور پر رقم کرتے ہیں: ’’جن الفاظ کے آخر میں، اصل کے مطابق، دو ’’ہ‘‘ ہیں، اس طرح کہ آخر میں ہائے مختفی ہے اور اُس سے پہلے ہائے ملفوظِ متحرک ہے؛ اُن کو صحیح طور پر لکھا جائے گا۔ ایسے لفظ کچھ زیادہ نہیں، مثلاً: قہقہہ، شیہہ، شُبہہ، جَبہہ، مشافہہ، فاکہہ، مواجہہ۔‘‘ بالفاظِ دیگر رشید حسن خان ذکر شدہ سات الفاظ کا املا دو ’’ہ‘‘ کے ساتھ دُرست مانتے ہیں۔
اس گتھی کو مولوی نور الحسن نیر نے ’’نوراللغات‘‘ میں یوں سلجھایا ہے: ’’شُبہہ: بالضم و فتح سوم و سکونِ چہارم۔ فارسیوں نے بروزنِ لقمہ بمعنی گمان استعمال کیا۔ فارسی شعرا نے شبہ بضمِ اول و فتحِ دوم و سکونِ ہائے ملفوظ بروزنِ کُلہ بھی کہا ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ’’بدر چاچی‘‘ کا یہ شعر بھی سند کے طور پر نوراللغات میں درج ملتا ہے:
بہانہ ایست غروبِ آفتاب را ہر شام
صریح باتو بگویم کہ نیست شک و شُبہ
نیز صاحبِ نور نے ’’شبہہ‘‘ کی سند کے طور پر حضرتِ ناسخؔ کا یہ خوب صورت شعر درج کیا ہے، ملاحظہ ہو:
شکل اُس کی ایسی ہے دلچسپ گر پڑجائے عکس
تاقیامت آئنے میں شبہہ ہو تصویر کا