ملکی ترقی میں زرعی معیشت کا کردار

زراعت فصلیں اُگانے اور غلہ بانی کو ترقی دینے کا فن ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک کے لیے زراعت کی اہمیت بہت اہم ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ترقی کے لیے زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ 40ء کی دہائی میں زراعت ملک کی جی ڈی پی کا 53 فی صد تھی جب کہ 65فی صد سے زیادہ مزدور زراعت کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ گذشتہ 7 عشروں کی سیاسی، سماجی، موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے ان اعداد و شمار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ زراعت ترقی کے بجائے تنزلی کی راہ پر گام زن ہے۔ موجودہ دور میں ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ محض22.4 فی صد ہے جب کہ زراعت سے وابستہ بر سرِ روزگار افراد کی تعداد 65 فی صد سے کم ہو کر صرف 35.9 فی صد رہ گئی ہے۔ ملک کی تقریباً 63.09 فی صد آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے۔ 60 فی صد سے زیادہ آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ زراعت متعلقہ شعبہ کی صنعتوں کے لیے مختلف اشیا کی ترسیل اور خرید و فروخت کا ذریعہ بھی ہے۔
یہ بات انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ ہم 796,09 کلومیٹر رقبے میں سے زراعت کے لیے محض 21.1 فی صد علاقہ ہی زیرِ استعمال لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ہماری 49 فی صد آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، یا وہ غیر معیاری خوراک استعمال کر تے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق 2050ء تک پاکستان میں گندم کی پیداوار میں 50 فی صد کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہماری آم کی پیداوار پہلے ہی سے شدید متاثر ہو چکی ہے۔ ان تمام پریشانیوں اور خطرات کے باوجود ہم دنیا میں سب سے زیادہ بڑی فصلیں کاشت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ ملکی زراعت میں 35 فی صد، لائیو سٹاک 61 فی صد، ماہی گیری2.06 اور جنگلات کا2.13 فی صد حصہ زراعت میں شامل ہے۔
سال 2015-16-19ء کے دوران میں زراعت کا شعبہ پیداواری لحاظ سے زوال کا شکار رہا۔ جنگلات سے آمدن میں سال 2015ء کے دوران میں بہت کمی ہوئی۔ 2017ء میں یہ کمی2.33 فی صد تک پہنچ گئی۔ گندم دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی فصل ہے۔ سال 2020ء میں گندم کے ذریعے زراعت میں 8.7 فی صد جب کہ قومی جی ڈی پی میں اس کا تناسب 1.7 فی صد رہا۔ سال 2019-20ء میں کورونا کے باوجود پاکستان نے 24.9 ملین ٹن گندم پیدا کی اور گندم کے پیداواری علاقے میں 1.7فی صد اضافہ ہوا۔
گندم کے بعد چاول کھانے، بیرونِ ممالک بھیجنے اور نقد فروخت کے لحاظ سے دوسری اہم فصل ہے۔ چاول کے ذریعے زراعت میں 3.1 فی صد جب کہ قومی جی ڈی پی میں اس کے حصے کا تناسب0.6 فی صد رہا۔ سال 2020ء میں پاکستان نے 7.4 ملین ٹن چاول کاشت کیا اور اس کے پیداواری کاشت کے علاقے میں 8 فی صد کا اضافہ ہوا۔
کپاس کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ زراعت میں اس کا حصہ 4.1 فی صد جب کہ قومی جی ڈی پی میں اس کا تناسب 0.8 فی صد رہا۔ سال 2019-20ء میں پاکستان نے 2018-19ء کے مقابلے میں 9.1 ملین کاٹن کی گانٹھیں فروخت کی جب کہ کپاس کی پیداوار میں تقریباً7 فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ کپاس کے پیداواری علاقے میں 6.5 فی صد اضافہ ہوا جب کہ 2019-20ء میں مجموعی طور پر کپاس کی فصل زوال کا شکار رہی۔
گنا بھی متعلقہ صنعتوں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چند ماہ قبل شوگر مافیاکا پورے ملک میں راج تھا اور گنے کی پیداوار اور دیگر لاز می عوامل پر عدم توجہی کی وجہ سے اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت نے جنم لیا۔ زراعت میں گنے کی پیداوار کا حصہ2.9 فی صد ہے جب کہ ملکی جی ڈی پی میں اس کے حصے کا تناسب 0.06 فی صد ہے۔ سال 2019-20ء کے دوران میں گنے کی کاشت اور پیداوار زوال کا شکار رہی اور اور اس کے پیداواری علاقے میں اضافہ کے بجائے5.6 فی صدکمی واقع ہوئی۔ بدانتظامی اور ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے چینی کے بحران نے جنم لیا۔
مکئی بھی بہت اہم فصل ہے۔ زراعت میں اس کا حصہ2.9فی صد جب کہ قومی جی ڈی پی میں اس کے حصے کا تناسب 0.06 فی صد ہے۔ سال 2019-20ء میں اس کے پیداواری علاقہ میں 2.9 فی صد اضافہ ہوا اور اس کی پیداوار میں بھی 7 فی صد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ مکئی کی پیداوار میں اضافے کا سببب پیداواری علاقے میں اضافہ اور بہتر بیجوں کا استعمال ہے۔
چنے ، باجرہ اور تمباکو کی پیداوار میں سال 2019-20ء کے دوران میں بالترتیب 21.9,9.7اور 5.8 فی صد اضافہ ہوا جب کہ جوار کی پیداوار میں 19.5 فی صد کمی واقع ہوئی۔
دالوں کی کاشت اور پیداوار میں 12.6 فی صد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ دال ماش کی پیداوار میں 5.8 فی صد کمی ہوئی جب کہ مسور کی دال کی پیداوار مستحکم رہی۔ بہتر موسم کی وجہ سے مرچ کی پیداوار میں 34.6 فی صد اضافہ ہو اجب کہ آلو اور ٹماٹر کی پیداوار میں سال 2019-20ء کے دوران میں 1 فی صد اور 5.3 فی صد کمی واقع ہوئی جس کے سبب عوام کو ٹماٹر بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
بیجوں سے نکالے جانے والے تیل کی پیداوار صرف 0.5 ملین ٹن رہی۔ 8 ملین سے زیادہ خاندان لائیو سٹاک کے شعبے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر منسلک ہیں اور یہ ان کی 35-40 فی صد تک آمدن کا زریعہ بھی ہے۔ ملکی درآمدات میں لائیو سٹاک کا حصہ3.1 فی صد ہے۔
زراعت کا 960.6 فی صد حصہ لائیو سٹاک پر انحصار کر تا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا تناسب11.7 فی صد ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان دودھ پیدا کر نے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ سال 2019-20ء کے دوران میں ہم نے61.6 ملین ٹن دودھ اور4.7 ملین ٹن گوشت پیدا کیا۔
پولٹری بھی لائیوسٹاک کا ایک ذیلی شعبہ ہے۔ حال ہی میں اس میں سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس شعبہ میں سرمایہ کاری کا حجم700 ملین روپے تک پہنچ چکا ہے جب کہ دوسری جانب یہ شعبہ1.5 ملین لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ شعبہ ملک میں گوشت کی مانگ کے توازن کو برقرار رکھنے میں بہت اہم ہے۔ کیوں کہ گوشت کی ملکی مانگ کا 35 حصہ پولٹری کا شعبہ پورا کر تا ہے۔ سال 2019-20ء کے دوران میں اس شعبے میں 9.1 فی صد اضافہ ہوا۔ ماہی گیری بھی ساحلی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں اس کاتناسب 0.4 فی صد ہے۔ سال 20019-20ء میں پاکستان نے تقریباً کل 701762 میٹرک ٹن مچھلی درآمد کی اس کے علاوہ ہم نے 49528 ملین روپے کی مچھلی اور مچھلی سے متعلق دیگر پیداوار فروخت کی۔ مجموعی طور پر اس شعبے میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ مچھلی کی مجموعی برآمدات کا حجم 2.7 فی صد رہا۔ جنگلات کا زراعت میں کلیدی کردار ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کل رقبے کاصرف5.01 فی صد جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں کل 4.51 ملین ہیکٹر جنگلات ہیں جن میں سے 3.44ملین جنگلات سرکاری اراضی پر جب کہ باقی پرائیویٹ اراضی پر مشتمل ہیں۔ یوں جنگلا ت کا حصہ محض2.1 فی صد ہے جس کی وجہ سے ملکی زراعت پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ہمیں اپنے عدسے زرعی معیشت کی طرف موڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ بالخصوص آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں اس شعبے میں روشن مستقبل کے وسیع ترین مواقع موجود ہیں۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔