تاریخ شاہد ہے کہ جن اقوام نے مسلسل اپنے وسائل کو کام میں لاکر خود کفالت حاصل کی، وہی اقوام ترقی کے بامِ عروج پر پہنچ گئیں۔ یورپی اور مغرب کی دوسری اقوام تو آج سے کئی صدیاں پہلے ہی یہ ٹارگٹ حاصل کرچکی ہیں، لیکن موجودہ دور میں اس کی بہترین مثالیں چین اور جاپان ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان تباہی اور بربادی سے دوچار ہوچکا تھا، لیکن جاپانی قوم نے مسلسل محنت اور قومی جذبے سے سرشار ہوکر دنیا میں اپنے لیے ایک باعزت اور منفرد مقام بنایا۔ یہی حال چینی قوم کا ہے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی مشہور تصنیف ’’شہاب نامہ‘‘ میں رقم کرتے ہیں کہ سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کی قیادت میں پاکستان کا ایک وفد چین کے دورے پر گیا تھا۔ اجلاسوں میں جن میں عظیم چینی رہنما چیئرمین ’’ماوزے تنگ‘‘ اور عظیم قائد ’’چوں این لائی‘‘ بھی موجود ہوتے تھے، شرکائے اجلاس کو ایک خاص قسم کا پھیکا قہوہ پیش کیا جاتا تھا۔ وہاں نہ کوکا کولا تھا، نہ پیپسی اور نہ دوسرا غیر ملکی مشروب۔
آمدم برسرِ مطلب، ایک مشہور سپورٹس مین کرسٹیانو رونالڈو کی ایک پریس کانفرنس میں کوکا کولا کی بوتل کو ہٹا کر پانی کی بوتل قریب کرنے پر صرف تین دن میں کمپنی کو چار ارب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا۔ واقعات کے مطابق کوکا کولا کمپنی کی سینئر مینجمنٹ نے مشہور سپورٹس مین رونالڈو سے ہنگامی بنیادوں پر رابطہ کیا اور رونالڈو کو برانڈ ایمبسیڈر کے طور پر محض چالیس سیکنڈ کی تشہیری مہم کے لیے پچاس کروڑ ڈالر کی آفر کی۔ بعض ذرائع ایک ارب ڈالر کی آفر بتا رہے ہیں۔ غور کریں کہ اگر اس موقعہ پر کوئی بھی اداکار یا کھلاڑی یا کوئی مسلمان سپورٹس مین یا اداکار ہوتا، تو اس کا جواب کیا ہوتا؟ لیکن کردار کسی انسان کی خوبصورتی کا ضامن ہوتا ہے۔ دیکھیے ایک عیسائی رونالڈو کا تاریخی جواب کہ ’’جو چیزیں اپنی فیملی کے لیے مناسب خیال نہیں کرتا اور ہمیشہ خود کو اور اپنے بچوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہوں، بھلا کس طرح محض ڈالروں کی خاطر دوسروں اور ان کے بچوں کے لیے پروموٹ کروں!‘‘
دیکھیے ایک عیسائی سپورٹس مین سرورِ کائناتؐ کی اس فرمان کی تعلیم دیتا ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے آپؐ نے فرمایا تھا: ’’تم میں سے وہ مومن نہیں کہ جو چیز اپنے لیے پسند کرے، دوسروں کے لیے پسند نہ کرے۔‘‘
بدقسمتی سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً مسلمان ممالک بنیادی ضروریاتِ زندگی کے علاوہ عیاشی کی کئی اشیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہی استعمال کرتے ہیں جن میں مشروبات خصوصی طور پر شامل ہیں۔ حالاں کہ بیشتر اسلامی ممالک پھلوں، سبزیوں، معدنیات اور صحت بخش جڑی بوٹیوں میں خود کفیل ہیں، لیکن بات محنت اور قومی خودداری کی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں عموماً یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ یہ لوگ اپنی پراڈکٹس مسلمانوں پر فروخت کرکے اربوں کھربوں ڈالر مسلم ممالک سے لے جاتے ہیں اور یہ سرمایہ الٹا مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف مسلمان ممالک احساسِ زیاں سے بے خبر خوابِ غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں جو کہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
وگے تگے پروت پہ خپل انڈیری خر ئے
نہ د تخت د پاسہ ناست د بل کرہ
د منت پلاؤ دی زہر شہ کہ مومے
د محنت سوے سوکڑک د ساگ سرہ
میڈیا رپورٹ کے مطابق بالی ووڈ اداکارہ کرینہ کپور بھی پرتگالی سٹرائیکر کرسٹیانو رونالڈو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پانی کی اہمیت بتانے لگی۔ یاد رہے کہ معروف پرتگالی سٹرائیکر نے پچھلے دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران میں اپنے سامنے رکھی کوکا کولا کی بوتلوں کو ہٹاکر ان کی جگہ پانی کی بوتل رکھی۔ رونالڈو کے چند سیکنڈ کے اس عمل سے کوکا کولا کمپنی کے حصص کی قیمتوں میں چار ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
اسی طرح رونالڈو نے سافٹ ڈرنک کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ تمام ڈرنکس انسانی صحت کے لیے نہایت خطرناک ہوتی ہیں اور انسانی جسم کے لیے سادہ پانی کی اہمیت و اِفادیت مسلم ہے۔ رونالڈو کے اس عمل کو ساری دنیا میں سراہا گیا۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ دنیا میں شگر کی بیماری بہت سرعت سے پھیل رہی ہے۔ اس مرض کے پھیلانے میں جہاں دوسری کئی وجوہات اور عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہاں ان میں اہم کردار سافٹ ڈرنک کا بھی ہے جب کہ سافٹ ڈرنک کے استعمال سے سینے، پیٹ اور جوڑوں کی بیماریاں بھی لگتی ہیں۔
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔