ایک عام آدمی جب حالات اور مجبوریوں سے تنگ آجاتا ہے، تو اس کے پاس بھڑاس نکالنے کے لیے بہت ہی محدود طریقے بچ پاتے ہیں۔ یہ بھڑاس نکالنے کے لئے عام طور پر عام آدمی کے پاس چند مقبول آپشنز ہوتی ہیں۔سب سے آسان راستہ، بھڑاس خود پہ ہی نکال دی جائے اور خود کو نقصان پہنچایا جائے۔ اپنی بھڑاس گھر بیٹھے بیوی بچوں یا اہل و عیال پہ نکال دی جائے یا پھر ظلم اور ناانصافی کے خلاف ہر فورم پہ اپنی آواز اٹھائی جائے۔ عام آدمی کو پتا ہوتا ہے کہ اس سے حکمران طبقہ پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ہر جگہ ،ہر وقت معاشرتی اور انتظامی برائیوں بارے اپنا اظہارِ خیال کرنے سے قطعاً نہیں کتراتا۔ ’’سپین خان‘‘ اسی عام آدمی کا نام ہے۔
اگرچہ سپین خان کے خیالات میں سنجیدگی کا مادہ بہت کم ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس میں سچائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے۔ یہاں سپین خان ان لوگوں کی نسبت بہت اعلیٰ ظرف کا حامل شخص ہے جو یہ بھڑاس اپنے آپ، گھر کے افراد یا ماتحتوں پر نکالتے ہیں۔
سپین خان اول اول ہمارے لوکل ویب سائٹ والوں کو ایک انٹرٹینمنٹ کے طور پر ہاتھ آیا تھا۔ اسکے اندازِ بیاں میں اب بھی سنجیدگی کا عنصر کم ہوتا ہے، البتہ وہ باتیں کھری اور قدرے کڑوی کرتا ہے۔ کبھی بال کی کھال اتارتا دکھائی دیتا ہے، تو کبھی ایسے مسائل کے خلاف بولتا ہے جن کا آجکل ہر فرد شکار ہے۔ یہ اکثر کارِسرکار میں مداخلت بھی کربیٹھتا ہے۔ بیشتر غیر ضروری چیزوں پر اپنا وقت ضائع کرتا ہے رہتا ہے۔ وہ تحریر کے فن سے ناواقف ہے۔ اس لئے یہ کسر اس نے اپنے فن تقریر سے پوری کرلی ہے۔ وہ سوات کے مسائل پہ لوگوں کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہے ، اپنی بھڑاس نکالنا چاہتا ہے۔ وہ اس قدر اکتا چکا ہے کہ اب شائد اسے کسی کا کوئی خوف نہیں رہا۔ بے باک ہے، ہر فورم پر اپنی بات کہہ کے ہی دم لیتا ہے۔ ہمارے لوگ اس کو دیکھ کر اسے چھیڑتے ہیں۔ اس کی تقاریر سے محظوظ ہوکر گھر کی راہ ناپتے ہیں، مگر بدلے میں اس کو کیا ملتا ہے؟ شائد اسے ایسا کرنے میں سکون ملتا ہے۔ یعنی سپین خان اپنی بے چینی، اپنے اظہارِ خیال کے ذریعے دور کرتا ہے۔ وہ ٹھیک کررہا ہے یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ وہ اپنے دفاع یا کسی غلط کام کو روکنے کے لئے الفاظ کا استعمال کرتا ہے لیکن کسی کو مار بالکل نہیں سکتا۔ وہ گالم گلوچ سے بھی کام نہیں لیتا۔ بس جہاں اسے لگا کہ کوئی کام غلط ہو رہا ہے، بلاجھجک اس کے خلاف بولتا ہے۔ اسکے حوالے سے یہ بھی کہتا چلوں کہ اپنی نادانی کی وجہ سے اکثر وہ دوسروں کے مقاصد بھی پورا کر دیتا ہے۔ پشتو کہاوت کے مصداق، لوگ اسکے کاندھے پر بندوق رکھ کر اپنے مخالف کا کام تمام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ جلد متاثر ہونے والا شخص ہے۔ بس اسے یہ باور کرائیں کہ فلاں مسئلہ موجود ہے اور لوگوں کو اس سے تکلیف ہے۔ وہ آپ کی بات پہ آنکھیں بند کرکے یقین کرلے گا، لیکن یہ یاد رہے کہ اس کا سارا دارومدار اس کی باتوں پر ہے۔اس نے آج تک کسی کو ہاتھ کا ستعمال کرتے نہیں روکا۔
گذشتہ روز سپین خان کو چند لوگوں نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ درد سے کراہتا رہا۔ زخمی حالت میں پولیس اسٹیشن جاکر رپورٹ درج کرائی، جسکے خلاف یہ رپورٹ درج ہوئی اس کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ شاید یہ کام کسی اور کا ہو۔ اس موقع پر شاید سپین خان کو استعمال کیا جارہا ہو۔ فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تشدد سہنے کے بعد سپین خان جب گھر واپس لوٹا، تو اس کی بیٹی اسے دیکھ کر رونے لگی۔ وہ روز اپنی کمسن بیٹی کو باہر گھمانے لے چلتا ہے اور اس کے لیے کھانے کی اشیا خریدتا ہے۔ وہ جوکہ ایک عرصہ سے اپنی زبان کا آزادانہ استعمال کرتا چلا آ رہا ہے، یہ اچانک تبدیلی اس کے لئے باعثِ حیرت تھی۔ لوگوں نے بھی اگر اس سے نفرت کی، تو اس کا لفظی اظہار کیا۔ اب کی بار معاملہ برعکس رہا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لوگوں نے پہلے اسے پسند کیا، پھر زبانی نفرت کا اظہار کرنے لگے۔ اب بات آگے چل کر تشدد پر آپہنچی ہے۔
سپین خان کو کس نے مارا اور کیوں مارا؟ یہ تاحال مکمل طور پہ واضح نہیں ہے۔کہا جارہا ہے کہ اس نے کیمیکل ملے دودھ کے حوالے سے ایک دودھ فروش کی دکان کے خلاف کسی مجمع کے سامنے تنقید کی اور اس کے بعد اس پر تشدد کیا گیا۔ اس حوالے سے سپین خان کہتا ہے کہ’’اس دن مَیں نے ملاوٹ شدہ اور کیمیکل ملے دودھ کے حوالے سے ایک ’’دودھ فروش‘‘ کے خلاف تقریر کی تھی۔ تقریر ختم ہوئی، تو شیو کرنے کی غرض سے ایک حجام کی دکان پر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے کسی کی کال آئی کہ ہم نے آپ سے ملنا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں شیو کرا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر میں ملتے ہیں۔ اس کے بعد جیسے ہی میں فارغ ہوکر باہر نکلا، تو ایک بندے نے میرا بازو پکڑ کر مجھے گھسیٹا اور مارنے لگا۔ اس کے ساتھ آئے ہوئے تقریباً دس افراد اور بھی تھے۔ اس کیا معصومانہ انداز دیکھیں: ’’اگر یہ دو تین بندے ہوتے، تو میں دیکھتا مجھے کیسے مارتے ہیں؟‘‘
ان دس افرد نے ہمارے معاشرے کی بہترین عکاسی کی ہے۔ واقعی ہم میں برداشت کا کوئی تصور نہیں رہا۔ برداشت نامی لفظ مملکت خداداد میں رائج اردو لغت سے نکال دینا چاہئے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارا یہ رویہ صرف کمزور اور اپنے سے کمتر لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی طاقتور اور بااثر شخصیت ہو، تو تب ہم ’’بیک فٹ‘‘ پر چلے جاتے ہیں۔ ہمارے منھ کو تالا لگ جاتا ہے اور ہم خود کو شریف سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن جوں ہی ’’سپین خان‘‘ کی طرح کوئی کمزور سامنے آئے، تو ساری بھڑاس اس پہ نکال دیتے ہیں۔ ہمارے اخبارات روزانہ کی بنیاد پرتنقید سے بھرے پڑے رہتے ہیں۔ ہر روز تنقید کی آڑ میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے۔ اس پر جوابی وار ہوتا بھی ہے، تو بیانات کے ذریعے۔کئی بار تو یہ تنقید یکسر نظر انداز کی جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم پر تنقید کرنے والا یا تو ہماری ٹکر کا ہوتا ہے، یا پھر ہم سے برتر۔ ہم میں سے ہر کوئی ’’سپین خان‘‘ کی تلاش میں بیٹھا رہتا ہے۔ اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے ایک عدد سپین خان کا ہونا ضروری ہوچکا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے ان کے بیوی بچے سپین خان ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے ماتحت کو سپین خان سمجھتے ہیں۔ کچھ اپنے آپ کو بھی سپین خان سمجھ کر اپنی بھڑاس خود پر ہی نکال دیتے ہیں۔ یہی چیزیں آگے جاکر معاشرے کو خود غرض، باغی اور ڈھیٹ افراد عطا کرتی ہیں۔
سپین خان کے معاملہ میں مجھ سمیت ہرشخص کا یہی مطالبہ ہے کہ اسے انصاف ملنا چاہئے۔مجھے امید ہے کہ مذکورہ معاملہ تحقیقات کے بعدواضح ہو جائے گا کہ کیا واقعی سپین خان کو ہمارا عدم برداشت کا رویہ لے ڈوبا یا پھر اس کو استعمال کیا گیا؟ دونوں صورتوں میں سپین خان مظلوم ہے۔