ڈاکٹر روشن ہلال کی یاد میں

اٹھارہ فروری 2012ء کو منگورہ شہر ایک اور نابغہ روزگار شخصیت سے محروم ہوگیا تھا۔ کامران خان کے بعد روشن ہلال ڈاکٹر صاحب کا سانحہ ارتحال نہ صرف منگورہ بلکہ پوری وادی کے لیے ایک نا قابل تلافی نقصان ہے۔ مرحوم ڈاکٹر صاحب کا تعلق منگورہ کے بزنس کمیونٹی سے تھا، مگر مرحوم اور اُن کے دو بھائی ڈاکٹر رشید احمد اور ڈاکٹر بلال میڈیکل کے شعبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے بیٹے ڈاکٹر مشتاق بھی اپنے فیلڈ میں اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر روشن ہلال کی شہرت صرف سوات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کے لوگ اُن کے نام اور کام سے واقف تھے اور دور دراز علاقوں سے لوگ اُن سے علاج کروانے کے لیے آتے تھے۔ وہ نہایت حلیم اور کم گو انسان تھے۔ تواضع اور انکساری اُن کے مزاج میں رچ بس گئی تھی۔ بعض کم فہم اُن کی خاموشی کو تکبر پر محمول کرتے تھے۔ جو سراسر غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔

ڈاکٹر صاحب کا تعلق منگورہ کے بزنس کمیونٹی سے تھا، مگر مرحوم اور اُن کے دو بھائی ڈاکٹر رشید احمد اور ڈاکٹر بلال میڈیکل کے شعبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے بیٹے ڈاکٹر مشتاق بھی اپنے فیلڈ میں اچھی شہرت کے حامل ہیں۔

مرحوم جب اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہوگئے تو انھوں نے سنٹرل اسپتال سیدو شریف کا چارج سنبھالا۔ یہ تاحال سوات کا سب سے قدیم اور بڑا طبی ادارہ ہے۔ اس کے اولین انچارج کیپٹن ڈاکٹر غلام محمد تھے جو برٹش آرمی سے ریٹائر ہوکر سوات آئے تھے۔ وہ بہت سخت گیر اور نظم و ضبط کی پابندی کرانے والے تھے۔ اسپتال اور اس کے تمام عملہ کو ہر وقت صاف ستھرا اور مستعد دیکھنا اُن کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ جب وہ راؤنڈ پر جاتے تو مریضوں کے معائنہ کے علاوہ، وہ صفائی کا بھی گہری نظر سے جائزہ لیتے تھے۔ وارڈ کے فرش پر معمولی دھبہ بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ایسے کسی موقع پر وارڈ انچارج اور خاکروبوں کی وہ ایسی گوش مالی کرتے کہ وہ دوبارہ ایسی غفلت سے ہمیشہ کے لیے توبہ تائب ہوجاتے۔ ڈاکٹر روشن ہلال صاحب نے جب چارج سنبھالا تو اپنے پیش رو کی تمام اچھی روایات کو قائم رکھا۔ وہی صفائی، وہی نظم و ضبط اور وہی وقت کی پابندی۔ وہ ایک ایک مریض کو اتنا وقت دیتے جیسے وہی مریض ہی سب سے اہم ہو۔ نہایت تفصیل اور جزئیات سے لیبارٹری رپورٹس اور ایکسرے وغیرہ دیکھتے اور اپنی فطری خاموشی برقرار رکھتے۔ مریض اپنی تکلیف بیاں کرتا، تو وہ پوری توجہ سے سنتے لیکن ’’ہوں، ہاں‘‘ کے علاوہ کچھ نہ بولتے۔ مریض بے چارہ یہ سمجھ لیتا کہ ڈاکٹر صاحب اُس کی باتوں میں دلچسپی نہیں لیتا یا اُنھوں نے نہیں سنا، تو وہ دوبارہ اپنی بات شروع کرتا۔ ساتھ کھڑے اٹینڈنٹس کو ڈاکٹر صاحب کی عادت کا علم تھا۔ وہ مریض کو چپ کراتے کہ بھئی! ڈاکٹر صاحب نے سب کچھ سنا ہے۔ دوبارہ داستان طرازی کی ضرورت نہیں۔

وہ ایک ایک مریض کو اتنا وقت دیتے جیسے وہی مریض ہی سب سے اہم ہو۔ نہایت تفصیل اور جزئیات سے لیبارٹری رپورٹس اور ایکس رے وغیرہ دیکھتے اور اپنی فطری خاموشی بر قرار رکھتے۔ مریض اپنی تکلیف بیاں کرتا تو وہ پوری توجہ سے سنتے لیکن ’’ہوں، ہاں‘‘ کے علاوہ کچھ نہ بولتے۔

سنٹرل اسپتال سیدو شریف نے ان کے زمانہ میں بہت ترقی کی۔ نئے آپریشن تھیٹر کے علاوہ اس میں نئی لیبارٹری اور ٹی بی کے لیے ایک وسیع وارڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مزید برآں ہسپتال کی حدود کے اندر ڈاکٹروں کے لیے بنگلے اور لوئر سٹاف کے لیے قریباً سولہ گھر تعمیر ہوئے۔
جب سوات میں پرائیویٹ پریکٹس کا آغاز ہوا تو صرف 3 ڈاکٹر ایسے تھے جو پرائیویٹ پریکٹس کرنے لگے۔ ان میں ڈاکٹر نجیب اللہ، ڈاکٹر روشن ہلال اور ڈاکٹر رشید احمد صاحب شامل تھے۔ ان کی پریکٹس آہستہ آہستہ بڑھنے لگی اور نوبت یہاں تک آگئی کہ کئی دن پہلے وقت اور نمبر لینا پڑتا تھا۔ دیر، ملاکنڈ، شانگلہ، بونیر اور کوہستان تک لوگ ان کے پاس علاج کے لیے آتے تھے۔ آج کل جو تھوک کے حساب سے میڈیکل سنٹر کام کررہے ہیں اور ان میں اسی تناسب سے ڈاکٹر کام کررہے ہیں، یہ سارا بوجھ صرف انھی حضرات کے کندھوں پر تھا اور وہ بہ طریق احسن اس ذمہ داری کو نبھارہے تھے۔
ڈاکٹر روشن ہلال طبعاً کم گو تھے۔اس لیے اُن کا حلقہ احباب بہت محدود تھا۔ سب سے زیادہ وہ جس صاحب کی صحبت میں آرام محسوس کرتے تھے اور اُن کے ساتھ بیٹھنے میں انگریزی محاورے کے مطابق ’’ایزی فیل‘‘ کرتے تھے وہ ان ہی کے ہم مزاج اور خاموش طبع پروفیسر امان الملک صاحب تھے۔ جن کو چھوٹے بڑے، اپنے پرائے سب ’’جاجا‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ وہ بھی دنیا سے سدھار چکے ہیں۔ وہ جہاں زیب کالج کے اولین اساتذہ میں شامل تھے اور ریاضی پڑھاتے تھے۔ کالج کالونی میں اُن کی رہائش گاہ سنٹرل اسپتال کے قریب واقع تھی۔ ڈاکٹر صاحب فارغ وقت میں اُن کے بنگلہ پر آتے۔ لان میں کرسیوں پر بیٹھ کر اخبار پڑھتے۔ ابتدائی علیک سلیک کے بعد دونوں خاموشی سے اخبار اُٹھاکر پڑھنا شروع کرتے۔ وقفہ وقفہ سے کبھی ’’ہاں، ہوں‘‘ کی آواز آتی۔ اس طرح گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ خاموشی سے گزرتا پھر ڈاکٹر صاحب کھڑے ہوکر کہتے ’’جاجا‘‘ خاصی گپ شپ ہوئی، اب میں چلتا ہوں۔ ان دونوں کو کرسیوں پر یوں خاموش بیٹھا دیکھ کر ایک حیران کن احساس ہوتا۔ کیا یہ دونوں ٹیلی پیتھی کے ذریعے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں؟ یا ایک دوسرے کی مائنڈ ریڈنگ کرکے تبادلہ خیال کررہے ہیں۔

سنٹرل اسپتال سیدو شریف نے ان کے زمانہ میں بہت ترقی کی۔ نئے آپریشن تھیٹر کے علاوہ اس میں نئی لیبارٹری اور ٹی بی کے لیے ایک وسیع وارڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مزید برآں ہسپتال کی حدود کے اندر ڈاکٹروں کے لیے بنگلے اور لوئر سٹاف کے لیے قریباً سولہ گھر تعمیر ہوئے۔

ان پیارے دوستوں کی اس بے آواز محفل اور بغیر گفتگو میلوں سفر کرنے کے بارے میں کئی لطیفے مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک قارئین کرام کی نذر کرتا ہوں جو بہت عام ہے اور اس کے راوی بھی بہت زیادہ ہیں۔ ایک شام ڈاکٹر صاحب اور جاجا کار میں سیر کے لیے نکلے۔ حسب معمول ڈاکٹر صاحب گاڑی چلا رہے تھے۔ تاج چوک کے قریب ایک کتا اچانک گاڑی کے سامنے آگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بریک لگا کر کتے کو بچایا۔ خوازہ خیلہ کے قریب جاجا نے کہا ’’کافر سپے وو‘‘ تو مدین کے قریب گاڑی واپس موڑتے ہوئے کہا ’’بال بال بچ گیا‘‘ اور پھر کالج کالونی میں جاجا کو کار سے اُتارتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’جاجا!خاصی گپ شپ ہوئی۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘
دعا ہے کہ اللہ، مرحوم کو تمام دوسرے مرحومین کے ساتھ اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔