عالمی یومِ سیاحت

ہمارے روحانی استاد ’’حضرت شاہ بابا‘‘ کہتے ہیں کہ کسی انسان کو پرکھنا مقصود ہو، تو اُسے اپنے ساتھ پہاڑوں کی سیر پر لے جائیں۔ اب جن لوگ کو ہماری طرح ہائیکنگ اور ٹریکنگ کا شوق چرتا ہے، وہی حضرت کے اس قول کی تصدیق کرسکتے ہیں۔
آمدم برسر مطلب، آج پوری دنیا میں یومِ سیاحت منایا جا رہا ہے۔ اس حوالہ سے ’’ایس پی ایس ٹریکنگ کلب‘‘ نے ’’ڈیپارٹمنٹ آف ٹووراِزم خیبر پختونخوا‘‘ کے اشتراک سے بشیگرام جھیل کے دو روزہ ٹریک کا پروگرام بنایا اور اس کی رہنمائی کا طوق راقم کے گلے میں ڈال دیا۔ گرچہ راقم کے ناتواں کاندھے یہ بارِ گراں اٹھانے سے کلی طور پر عاجز تھے، مگر بابا جی کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ چارہ نہ تھا۔ ہماری ٹیم اُنتیس طلبہ اور چھے اساتذہ پر مشتمل تھی۔ ٹریک کو چار چاند سوات یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی کے پروفیسر اظہر الدین صاحب نے لگائے اور اپنے ڈرون کیمرہ کی آنکھ سے بشیگرام جھیل کی خوبصورتی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔مذکورہ جھیل کے حوالہ سے راقم ڈان میڈیا اور روزنامہ آزادی کے ادارتی صفحہ پر پچھلے سال ایک تحریر آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج ایک بار پھر اسی تحریر کو تھوڑی سی ترمیم کے بعدآپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ’’گر قبول افتد زہے عز و شرف۔‘‘

بشیگرام جھیل وادئی بشیگرام (مدین) کے مشرقی طرف واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی گیارہ ہزار پانچ سو فٹ ہے۔ اس کا شمار نہ صرف سوات بلکہ پورے پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔

بشیگرام جھیل وادئی بشیگرام (مدین) کے مشرقی طرف واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی گیارہ ہزار پانچ سو فٹ ہے۔ اس کا شمار نہ صرف سوات بلکہ پورے پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے باغ ڈھیرئی کے راستے اکیاون کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مدین کا علاقہ آتا ہے۔ مدین تک روڈ کی صورتحال بہتر ہے۔ یہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹہ میں با آسانی طے ہوجاتا ہے۔ مدین سے آگے فور بائی فور جیپ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیوں کہ مذکورہ روڈ خستہ حال ہے۔ یہ فاصلہ بارہ سے لے کر چودہ کلومیٹر تک بنتا ہے لیکن گاڑی اسے طے کرنے میں سوا ایک گھنٹے تک کا وقت لیتی ہے۔ ’’درہ کس‘‘ کے مقام پر گاڑی سے اترنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ آگے جیپ ایبل ٹریک بھی ختم ہوجاتا ہے۔
’’کس‘‘ سے آگے کئی ہرے بھرے چھوٹے بڑے درّے دعوتِ نظارہ دیتے ہیں جن میں ’’درۂ مغل مار‘‘ لہلہاتے کھیتوں اور پھلدار درختوں کی وجہ سے ذکر کرنے کے لائق ہے۔ درۂ مغل مار کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے اہلِ علاقہ لاعلم ہیں۔ وادئی بشیگرام اور اس کے اندر مختلف دروں کے لوگ سب کے سب بے حد مہمان نواز ہیں۔ ہر دس بارہ قدم بعد جب بھی کوئی مقامی شخص ملتا ہے، تو سلام دعا کے بعد چائے پانی کا ضرور پوچھتا ہے۔

’’کس‘‘ سے آگے کئی ہرے بھرے چھوٹے بڑے درّے دعوتِ نظارہ دیتے ہیں جن میں ’’درۂ مغل مار‘‘ لہلہاتے کھیتوں اور پھلدار درختوں کی وجہ سے ذکر کرنے کے لائق ہے۔

درۂ کس سے دو گھنٹے پیدل سفر کے بعد ایک چھوٹا سا بانڈہ آتاہے جس میں بمشکل تین چار کچے کوٹھے اور ایک چھوٹی سی مسجد واقع ہے۔ مذکورہ بانڈہ میں ایک اسّی سالہ بزرگ ملک کے بقول جب وہ آٹھ دس سال کے تھے، تو ریاست سوات کے والی ’’میاں گل عبدالحق جہانزیب‘‘ خود بشیگرام جھیل کی سیر کرنے آئے تھے۔ ’’وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے جب والئی سوات بشیگرام جھیل آئے تھے۔ آس پاس کے گاؤں والوں نے ان کی اور ان کے ساتھ آنے والوں کی خوب خاطر مدارت کی تھی۔ ہم اُس روز بہت خوش تھے کہ ہمارے گاؤں ’’بادشاہ سرکار‘‘ آئے ہیں۔ میری عمر اس وقت بمشکل آٹھ دس سال ہوتی ہوگی۔‘‘ اُس موقع پر بزرگ نے بڑے پُرجوش انداز سے ہمیں اپنی کہانی سنائی تھی اور ہاتھ کے اشارہ سے ہمیں سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی کہ’’اُس وقت میرا قد اتنا لمبا تھا۔‘‘
درۂ کس سے تقریباً ایک گھنٹہ پیدل سفر طے کرنے کے بعد گھنے جنگل کا آغاز ہوتا ہے۔ جنگل میں سفر کے دوران میں مختلف پرندوں کی میٹھی آوازیں گویا کانوں میں رس گھول دیتی ہیں۔ جنگل سے نکلتے ہی بہار کے موسم میں چہار سو سبزہ اور رنگ برنگے پھول آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں۔ جھیل تک تقریباً ہر دس پندرہ منٹ کے پیدل سفر کے بعد میٹھے پانی کا کوئی جھرنا یا چشمہ ضرور ملتا ہے۔ جھیل سے نکلنے والا پانی ایک ندی کی شکل میں سیاحوں کا راستہ وقتاً فوقتاً کاٹتا رہتا ہے۔ مذکورہ ندی عبور کرنے کے لئے مختلف جگہوں پر بڑے بڑے درختوں کو کاٹ کر پُل کی شکل میں رکھا گیا ہے۔ نیچے پُرشور پانی کے اُوپر پل نما درخت پر گزرتے ہوئے آدمی کے دل میں عجیب سی گدگدی ہوتی ہے۔ کمزور دل افراد کو اُن کے گائیڈ ہاتھ تھما کر مذکورہ پل پار کراتے ہیں۔ ندی زیادہ تر چوں کہ جنگل یا پھر درختوں کے درمیان گزرتی ہے، اس لئے اس کا پانی انتہائی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ سیاح ٹھنڈے پانی سے بوتل بھر کر اپنے پاس رکھتے ہیں اور جب دس پندرہ منٹ بعد یہ پینے کے لائق ہوجاتا ہے، تو ہی پیتے ہیں۔

درۂ کس سے تقریباً ایک گھنٹہ پیدل سفر طے کرنے کے بعد گھنے جنگل کا آغاز ہوتا ہے۔ جنگل میں سفر کے دوران میں مختلف پرندوں کی میٹھی آوازیں گویا کانوں میں رس گھول دیتی ہیں۔

بشیگرام جھیل تک جانے والا راستہ چوں کہ لمبے لمبے پہاڑوں اور گھنے جنگلات کے درمیان گزرتا ہے۔ اس لئے گرمی بھی کم لگتی ہے اور پیاس بھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق ماہِ جولائی کے پہلے ہفتے تک جھیل برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ اس لئے جولائی کے اواخر یا اگست کے اوائل سے اس کی سیر بہترین آپشن تصور کی جاتی ہے۔ مذکورہ ایام میں دھند اور بادل کے ٹکڑے جھیل کے احاطہ میں آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے ہیں اور ماہِ ستمبر کے گزرتے ہی یہاں باقاعدہ طور پر برف باری شروع ہوجاتی ہے۔ جھیل چوں کہ زیادہ اونچائی پر واقع ہے، اس لئے اگست کے اواخر میں جہاں ایک طرف ملک کے دیگر حصوں میں حبس زدہ گرمی سے لوگوں کی جان نکلتی ہے، وہاں دوسری طرف برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جھیل کے نیلگوں پانی میں تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جنھیں دیکھ کر سیاحوں پر عجیب سی سرخوشی طاری ہوتی ہے۔ اس خوبصورت جھیل کو تین اطراف (مشرق، شمال، جنوب) سے فلک بوس پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔ مغرب کی طرف سے پانی کے نکلنے کا راستہ ہے۔ یوں پانی ایک چھوٹے سے آبشار کی شکل میں نیچے گرتا ہے جو دور دور سے دکھائی دیتا ہے۔

جھیل کے حوالہ سے کئی فرضی کہانیاں مشہور ہیں۔ ہمارے گائیڈ عظیم خان نے ایک فرضی کہانی یوں سنائی کہ ’’ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ یہاں ہر جمعہ کے روز دوپہر کی اذان کے بعد دو سونے کے کٹورے پانی کی سطح پر تیرتے نظر آتے تھے۔ ایک دن چند لوگوں نے نماز چھوڑی اور مذکورہ کٹوروں کو حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر بے سود۔ وہ دن اور آج کا دن کہ پھر مذکورہ وقت کسی کو کٹورے نظر نہیں آئے۔‘‘

بشیگرام چوں کہ الپائن چوٹیوں (Alpine Peaks) پر واقع ہے، اس لئے کافی فاصلہ تک اس کے ارد گرد درخت کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ گیارہ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر جب بشیگرام جھیل کہر کی چادر سر پر تان لیتی ہے، تو سیاح یہ منظر دیکھتے ہی پہلی نظر میں اس کے عاشق ہوجاتے ہیں۔ ’’ڈیپارٹمنٹ آف ٹوورازم خیبر پختونخوا‘‘ نے وادئی چیل مدین میں پہاڑوں کے دامن میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایک خیمہ بستی بنائی ہے، جسے جھیل کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جھیل کے حوالہ سے کئی فرضی کہانیاں مشہور ہیں۔ ہمارے گائیڈ عظیم خان نے ایک فرضی کہانی یوں سنائی کہ ’’ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ یہاں ہر جمعہ کے روز دوپہر کی اذان کے بعد دو سونے کے کٹورے پانی کی سطح پر تیرتے نظر آتے تھے۔ ایک دن چند لوگوں نے نماز چھوڑی اور مذکورہ کٹوروں کو حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر بے سود۔ وہ دن اور آج کا دن کہ پھر مذکورہ وقت کسی کو کٹورے نظر نہیں آئے۔‘‘

bookmakers accepting bitcoin

’’ڈیپارٹمنٹ آف ٹوورازم خیبر پختونخوا‘‘ نے وادئی چیل مدین میں پہاڑوں کے دامن میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایک خیمہ بستی بنائی ہے، جسے جھیل کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دوسری فرضی کہانی میں جمعہ کی رات کو سونے کے صرف ایک کٹورے کے نکلنے کا حوالہ ملتا ہے جبکہ تیسری کہانی دل دہلا دینے والی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دسمبر یا جنوری کے مہینہ میں مقامی پہاڑوں میں شادی کی بارات کا جھیل کے احاطہ سے گزر ہوا۔ زیادہ برف پڑنے کی وجہ سے درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے گر گیا تھا، جس کی وجہ سے جھیل کی سطح منجمد ہوکر ایک وسیع میدان کی شکل پیش کر رہی تھی۔ جھیل تک پہنچتے پہنچتے چوں کہ شام کے سائے گہرے ہوگئے تھے، اس لئے باراتیوں میں کسی کو گماں تک بھی نہ گزرا کہ وہ جھیل کے پانی کے اوپر جمی برف کی تہہ پر سفر کر رہے ہیں۔ اسی دوران میں کسی نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ رات اس وسیع میدان (منجمد جھیل) پر گزار دی جائے۔ یوں ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں گے، یعنی تھکن بھی دور ہوجائے گی اور پیٹ کی آگ بھی بجھ جائے گی۔ باہمی مشاورت کے بعد خیمے لگائے گئے۔ اپنے ساتھ خچروں پر لائی گئی خشک لکڑیوں کی مدد سے آگ روشن کی گئی، تاکہ نہ صرف کھانا تیار کیا جاسکے بلکہ آگ تاپ کر ٹھٹھرتی سردی کا مقابلہ بھی کیا جاسکے۔ یوں آگ روشن کی گئی اور باراتی دو پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک پارٹی کھانے کی تیاری میں مشغول ہوئی جب کہ دوسری مع دلہن آگ تاپنے میں۔ شعلے اُٹھنے لگے، تو جلد ہی جھیل کی سطح پر جمی برف میں دراڑیں پڑگئیں۔ دونوں پارٹیاں اپنے انجام سے بے خبر اپنے اپنے کام مشغول تھیں کہ دفعتاًمنجمد جھیل کی سطح بیٹھ گئی۔ نتیجتاً نئی نویلی دلہن، جہیز، باراتیوں، خچروں اور حفاظت پر مامور کتوں سمیت جھیل کے برفیلے پانی کی نذر ہوگئی۔‘‘