توارد کے حوالہ سے ڈاکٹر محمد اشرف کمال اپنی تالیف ’’تنقیدی نظریات اور اصطلاحات‘‘ کے صفحہ نمبر 176 پر رقم کرتے ہیں: ’’توارد کے لغوی معنی ’’باہم ایک جگہ اترنا‘‘ کے ہیں۔ اصطلاحی معنی ’’دو شعرا کے ہاں کسی ایک ہی خیال کی اتفاقیہ مماثلت یا مطابقت ہوجانا‘‘ کے ہیں۔ اس سے یہ شک گزرتا ہے کہ کسی ایک شاعر نے دوسرے کے خیال کو چرایا ہے۔
اس حوالہ سے پروفیسر انور جمال اپنی تالیف ’’ ادبی اصطلاحات‘‘ کے صفحہ نمبر 85 پر دلچسپ انداز سے کچھ یوں رقم کرتے ہیں: ’’دنیائے خیال میں اکثر ہوجاتا ہے کہ ایک مضمون جو پہلے سے کسی شاعر نے اپنے شعر میں باندھا، بعد میں کسی اور کے ذہن میں توارد ہوجائے۔ اس کی تین وجوہات ہیں:
پہلی، دورانِ مطالعہ کوئی خیال یا خوبصورت مضمون کسی شاعر نے پڑھ لیا جو اس کے شعور کے کسی کونے میں محفوظ ہوگیا۔ عرصے بعد اسے یاد نہ رہا کہ یہ مضمون کس کا تھا اور شعوری ارادے کے بغیر وہی مضمون دورانِ فکرِ شعر نظم ہوگیا۔
دوسری، اتفاقاً بھی کوئی ایسا خیال قدرتی طور پر ذہنِ شاعر سے ٹپک سکتا ہے ، جو اس سے قبل کسی نے باندھا ہو۔
تیسری وجہ، ارادتاً کسی کے خیال کو اپنے لفظوں میں بیان کر دیا گیا (یہ سرقہ ہے )۔
اس کے برعکس ’’سرقہ‘‘ قصداً کسی شاعر، ادیب کے خیال یا تخلیق کو لے لیا جاتا ہے۔ آزاد دائرۃ المعارف میں ’’سرقہ‘‘ کی تعریف کچھ یوں بیان کی گئی ہے: ’’کسی بھی مواد کو جس کے جملہ حقوق محفوظ ہوں، بغیر اجازت یا اجازت کے ساتھ اپنے یا کسی اور کے نام پر استعمال کرنا ’’ادبی سرقہ‘‘ کہلاتا ہے۔‘‘
دوسری طرف پروفیسر انور جمال اپنی تالیف ’’ ادبی اصطلاحات‘‘ کے صفحہ نمبر 118 پر رقم کرتے ہیں: ’’سرقے کی حد لگاتے وقت فقیہانِ ادب کو نہایت حوصلے، ضبط اور نیک نیتی سے کام لیناہوتا ہے۔ اس لیے کہ توارد کے گمان کا فائدہ دینا پڑتا ہے۔ یہ تو نیت کی بات ہے اور نیّات کو عالمِ غیب جانتا ہے۔ ‘‘
سرقہ کی اقسام کے حوالہ سے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی اپنی ضخیم تالیف ’’ادبی اصطلاحات کا تعارف‘‘ کے صفحہ نمبر 286 پر رقم کرتے ہیں: ’’سرقہ کی چار قسمیں بنتی ہیں:
پہلی، کسی لفظ یا معنوی تغیر کے بغیر کسی کے شعر کو اپنے نام سے منسوب کرلینا۔
دوسری، صرف تغیرِ لفظی کے بعد کسی کے شعر کو اپنے نام سے منسوب کرلینا۔
تیسری، معنوں میں کسی قدر تغیر کے بعد کسی کے شعر کو اپنے نام سے منسوب کرلینا۔
چوتھی، مضمون اور الفاظ دونوں میں تھوڑا بہت تغیر کرنے کے بعد کسی کے شعر کو اپنے نام سے منسوب کرلینا۔ ‘‘
سرقہ کی مثال دیتے ہوئے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی انہی سطور میں آگے رقم کرتے ہیں: ’’اثر لکھنوی نے فراق گورکھپوری کے ہاں جن سرقات کی نشان دہی کی ہے، ان میں سے ایک مثال ایسی ہے جس سے سرقہ کا تصور قائم کرنے میں آسانی ہوگی۔ فراقؔ کی ایک رباعی کا مصرعہ ہے:
جب کرنیں ہمالیہ کی چوٹی گوندھیں
اثر لکھنوی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مصرع چکبست کے اس شعر سے سرقہ کیا گیا ہے:
ہر صبح ہے یہ خدمتِ خورشیدِ ضیا کہ
کرنوں سے گوندھتا ہے چوٹی ہمالیہ کی
قارئین کرام، مجھے اپنی نوجوانی میں وصی شاہ کی ایک نظم ازبر تھی، جسے میں اکثر گنگنایا کرتا تھا، ملاحظہ ہو: (واضح رہے کہ اُن دنوں ہم عاشقِ نامراد تصور کیے جاتے تھے)
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حِدّت سے دِہک سا جاتا
رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اِک تکیہ بنایا کرتی
میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
مگر بعد میں مجید امجد کی نظم پڑھنے کو ملی، تو اس دن کے بعد نجانے کیوں وصی شاہ کو دوبارہ پڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ مجید امجد کی نظم ملاحظہ ہو:
کاش میں تیرے بنِ گوش میں بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈھتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جوں ہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشۂ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہرگز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش میں بندا ہوتا
ایسی ہی ایک مثال پشتو شاعری سے بھی پیش کرنا چاہوں گا۔ منیرؔ صاحب نے ایک غزل لکھی ہے، جس کے ساتھ میرا بالکل اتفاق نہیں، مطلع ملاحظہ ہو:
وینے تہ اوبہ وایہ کہ ژوند کوے
سپینے سپینے مہ وایہ کہ ژوند کوے
جب کہ میرا ایمان ہے کہ
سپینے سپینے اووایہ او ژوند کوہ
اب کتاب ’’د وڑو وڑو خدایانو دی بندہ کڑم‘‘ شائع شدہ (غالباً) 2006ء میں سیف الرحمان سلیمؔ کی غزل کا مطلع ملاحظہ ہو:
بدو تہ ئی خہ وایہ، ترخو تہ ئی خواگہ وایہ
دلتہ کہ دا نہ وائے، نو غلے شہ سہ مہ وایہ
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔